• news

باخدا دیوانہ باشد با محمد ہوشیار

علامہ احمد علی قصوری کے لئے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی بڑی محبت اور عزت رکھتے تھے۔ کسی مقام پر دعائے خیر کا موقع آتا تو وہ ہمیشہ علامہ صاحب سے کہتے کہ آپ دعا کروائیں۔ کبھی کبھی چورہ شریف کے سجادہ نشین پیر کبیر علی شاہ بھی دعا کرواتے۔ ان کا تعلق بھی نوائے وقت اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ ہے۔ علامہ احمد علی قصوری تو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے لئے ایک علمی باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں۔ مزار اقبال پر یوم اقبال پر حاضری کے دوران بھی مرغوب احمد ہمدانی، سرور حسین نقشبندی نعت پڑھتے ہیں اور کلام اقبال سناتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اپنا یہ کلام علامہ اقبال خود بھی سنتے ہوں گے۔ اس یوم اقبال پر شاہد رشید اور ان کی ٹیم کے اہتمام سے صدر محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں نظریہ پاکستان کے لوگ مزار پر پہنچے۔ آج بھی دعائے خیر علامہ احمد علی قصوری نے کروائی۔ وہ بڑے جذب و کیف کے آدمی ہیں۔ عشق رسول کی کیفیتوں سے مالا مال ہیں۔ 

میرے ساتھ ان کی محبت بڑی گہری اور پرانی ہے۔ وہ دل والے آدمی ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ کسی مذہبی معاملے پر کوئی میٹنگ ہو تو علامہ صاحب بڑی عالمانہ شان سے شاندار گفتگو بڑی جرات ایمان سے کرتے ہیں اور انہیں عشق رسول کی طاقتیں بھی حاصل ہیں۔
پچھلے دن انہوں نے مجھے بلایا۔ میں نے اکثر ان کے ساتھ جمعے کے دن ملاقاتیں کی ہیں۔ میلاد کی محفلوں میں نعتیں بھی حاضرین کو سنوائی ہیں۔ ان کے ہاں کبھی کبھی رات 9 بجے ایک روحانی محفل بھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لنگر بھی تقسیم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ مل کر لنگر کھاتے ہیں۔ میں نے یہ لنگر ان کی بہت خوبصورت لائبریری میں کھایا۔ یہ لائبریری ان کا بیڈ روم بھی ہے۔ یہاں وہ جاگتے زیادہ ہیں اور سوتے کم ہیں۔ جاگنا رات میں ہوتا ہے۔ رات اپنے جاگنے والوں کو اپنا راز دیتی ہے۔
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
یہ راز یقیناً علامہ قصوری کو ملا ہو گا ابھی ہمیں انہوں نے بتایا نہیں ہے۔ راز ایک آدمی کے پاس ہوتا ہے۔ دوسرے تک پہنچنے پر راز راز نہیں رہتا۔ تو پھر کہا گیا کہ راز کا فروغ کیسے ہو۔ میں نے کہا کہ دوسروں کو ہمراز بنا لیا جائے۔ یہ راز کا فروغ بھی ہے اور راز کی حفاظت بھی ہے۔
علامہ احمد علی قصوری نے اپنی محبت کے دردوگداز، علم و عشق اور فکر و خیال کے سوز و گداز سے کئی ہمراز پیدا کئے ہیں۔ وہ بہت اچھی تقریر کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی محفلوں میں بہت خوبصورت علمی اور روحانی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی امامت میں نماز جمعہ پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مختلف اور دلچسپ خطبہ سننے کا موقع ملتا ہے۔ ہر جمعے کو خطاب کرنا روٹین کی بات ہو جاتی ہے مگر سنی سنائی باتوں کو بھی ایک نئی بات بنا دینا ایسا ہنر ہے جو دل کی تڑپ سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ دل جس میں عشق اور عشق رسولﷺ بھرا ہوا ہو۔
کتابوں کے درمیان چھوٹے سے کمرے میں ایک کشادگی بہت لطف دے رہی تھی۔ ہر طرح کی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے یہ کشادگی ضروری ہے تاکہ ایک اچھی زندگی جینے کا لطف آ جائے۔ مجھے لگا کہ یہ کمرہ اینٹوں کی بجائے کتابوں سے بنایا گیا ہے۔
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
شاعر ادیب بھی عشق اور عشق رسولﷺ رکھتے ہیں۔ نعت گو شاعروں اور ثنا خوان رسولﷺ نے عشق رسولﷺ کے فروغ میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ علامہ اقبال جیسا عاشق رسولﷺ تو کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ آج مفکر پاکستان شاعر مشرق حکیم الامت کہلاتے ہیں۔ ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم کو کافراعظم کہا گیا۔ آج کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے عاشق رسولﷺ تھے۔ ناموس رسالتﷺ کے لئے ہمیشہ اپنی جان نثار کرنے کو ایمان سمجھا جاتا ہے۔ علامہ صاحب نے فرمایا کہ اس کا ایمان مکمل نہیں جو اپنے ماں باپ اور سب رشتوں سے بڑھ کر آپ کو نہ چاہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے ایک کالم کا عنوان ہی یہ ہے:
”میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں“
علامہ صاحب نے فرمایا کہ شاعروں، ادیبوں کو کچھ باتوں میں رعایت حاصل ہے۔ خود شاعرِسولﷺ حضرت حسان بن ثابت نے آپ کے سامنے اشعار پڑھے جس میں ”تو“ اور تیرا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
میں نے عرض کیا کہ پھر بھی ہر مسلمان اور کسی انسان کو آقا و مولا رسول کریمﷺ کے بارے میں مکمل احتیاط اور دل و نگاہ کی حضوری کو ضروری بنانا چاہئے۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
میں نے ایک مصرعہ علامہ قصوری صاحب کی خدمت میں پیش کیا جس کو انہوں نے بہت پسند فرمایا
با خدا دیوانہ باشد با محمد ہوشیار

ای پیپر-دی نیشن