اسلام آباد میں ’’جُزوی اسلام نافذ‘‘
حضرت یوسفؑ نے وزیرِ مالیات کی حیثیت سے مفلوک الحال مِصر کے حالات دُرست کردئیے تھے اور ہمارے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کمال یہ کِیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت ’’ اسلام آباد ‘‘ میں اسلام کے ایک رُکن صلواۃ کا نظام نافذ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ جو کام آلِ رسولؐ کہلانے والے سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نہیں کرسکے وہ سردار محمد یوسف نے کر دِکھایا۔ امامِ کعبہ الشیخ خالد الغامدی کی اِقتدا میں اسلام آباد کی فیصل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے والوں میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین بھی تھے اور دوسرے وفاقی وزراء بھی لیکن اسلام آباد میں نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا اعلان کرنے کا اعزازسردار محمد یوسف کو حاصل ہوا۔
جمعہ کے دِن یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دِن (May Day) بھی تھا۔ اِس دن کراچی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر اہتمام ’’ دفاعِ حرمین شریفین ریلی‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل الرحمن نے بھی یاد کِیا۔ "May Day" (یومِ مئی) 1886ء کو شکاگو میں اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرنے والے ساڑھے تین لاکھ مزدوروں کے احتجاج اور اُن میں لاتعداد کے شہید ہونے کی یاد میں پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے کیونکہ اکثر عُلماء مسلمانوں کو اللہ اور اُس کے رسولؐ کا یہ فرمان سُنایا کرتے ہیں کہ ’’ الکاسب ُ حِبیب اللہ‘‘ (یعنی مزدور یا ہُنر مند اللہ کا دوست ہوتا ہے)۔ مولانا فضل الرحمن جب ’’دفاعِ حرمینِ شریف ریلی‘‘ میں شکاگو کے شہید مزدوروں کو یاد کر رہے تھے تو مجھے بہت خُوشی ہوئی۔
فیصل مسجد میں صدر ممنون حسین سمیت جِن ایک لاکھ مسلمانوں نے یکم مئی کو امامِ کعبہ کی اِقتدا میں نمازِ جمعہ ادا کی وہ خوش قِسمت ہیں ۔ اس لئے امامِ کعبہ نے پاکستان کے اہم مسئلہ ’’دہشت گردی‘‘ کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے فتویٰ دے دِیا ہے کہ ’’طالبان اور داعش کے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ خلیفہ راشدین حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے خلاف عَلم بغاوت کرنے والے ’’خوارج‘‘ کے انداز میں اپنی مرضی کے مطابق قرآن و سنت کی تشریح کرتے ہیں‘‘۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سردار محمد یوسف کی ’’ لیڈر شپ‘‘ میں اسلام آباد کے جِن مختلف المسالک عُلماء نے اسلام آباد کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں آذان اور نماز پر اتفاق کیا ہے وہ بھی امامِ کعبہ صاحب کی پیروی کرتے ہوئے طالبان اور داعش میں شامل دہشت گردوں کے خلاف بھی ’’کُفر کا فتویٰ دیں‘‘ اور پُر امن رہ کر ایسے لوگوں کو قانون کے حوالے کردیں ۔
اصولی طور پر اسلام آباد کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز کے نظام کے نفاذ کا اعلان صدر ممنون حسین کو کرنا چاہیے تھا تاکہ’’کلام اُلملوک، ملُوک اُلکلام‘‘ کہلاتا۔ مَیں نے فیصل مسجد میں نماز جمعہ کے مناظر دیکھے تو مجھے امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق بہت یاد آئے جو اپنی تقریروں میں یہ دو خاص اعلانات ضرور کِیا کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’جماعتِ اسلامی کو اقتدار مِل گیا تو وزیراعظم اذان دیا کرے گا اور صدرِ مملکت نماز پڑھایا کریں گے ‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’میں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس میں بھی ’’مزدور‘‘ کو دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ اِن اعلانات کے بعد مجھے یقین ہے کہ اگر کبھی جماعتِ اسلامی اقتدار میں آگئی تو اس کی طرف سے جماعت کا کوئی رکن یا مُتفق مزدور ہی صدارت اور وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوگا‘‘۔
جناب سراج الحق جب مزدوروں کے لئے اِس طرح کی خُوش کُن گفتگو کرتے ہیں تو مجھے خلیفۃ الرسولؐ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ یاد آجاتے ہیں۔ خلافت کا منصب سنبھالنے سے پہلے حضرت صدیق اکبرؓ کپڑے کے تاجر تھے۔ صحابۂ کرامؓ نے ان سے کہا کہ ’’اب آپ تجارت نہیں کرسکتے‘‘۔ آپؓ نے پوچھا کہ ’’میری گُزر اوقات کیسے ہوگی؟‘‘ صحابہؓ نے کہا کہ ’’آپ بَیت اُلمال سے تنخواہ لے لِیا کریں‘‘۔ خلیفۂ اسلام ؓ نے کہا ٹھیک ہے ’’مَیں بیت اُلمال سے مدینہ کے عام مزدور کی آمدن کے برابر تنخواہ لے لِیا کروں گا‘‘۔ مدینہ منورہ میں ہوتے تو حضرت ابو بکرؓ نماز خود پڑھاتے تھے۔ انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے وصیت کی کہ ’’مَیں نے اپنے عرصہ خلافت (تقریباً سوا سال) میں اپنی تنخواہ کے طور پر 6 ہزار درہم وصول کئے تھے وہ میری جائیداد فروخت کر کے بَیت اُلمال میں جمع کرا دئیے جائیں‘‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ صدر ممنون حسین کی جائیداد اُن کی جنم بھومی آگرہ میں ہے یا کراچی میں؟ اور اُن کی اور ایوانِ صدر کے عملے کی تنخواہ کتنی ہے اور دوسرے اخراجات کتنے ہیں ؟مجھے تو وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنرز، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وفاقی اور صوبائی وزراء کی تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کے بارے میں بھی عِلم نہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ ان میں سے کِس کِس کے پاس بُلٹ پروف گاڑیاں ہیں؟ ’’بیت اُلمال‘‘ ( قومی خزانہ) سے رقوم نکلوا کر جہاز بھر بھر کر حج اور عُمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کتنے لوگوں کو لے جایا جاتا ہے؟ مَیں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ مصورِ پاکستان علامہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو اپنی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی مقدمات دوسرے سینئر اور جونیئر وکلاء میں بانٹ دِیا کرتے تھے۔
مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر قوم کے نام کردیا تھا۔ عالمِ اسلام کے ایک اور ہیرو ’’اتا تُرک‘‘غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل نگران اور وفاقی وزیر مذہبی امور شہزادہ جمال نذیر نے اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ مذہبی امور کی عمارت میں سالہا سال سے آویزاں علامہ اقبالؒ اور قائداعظم کے پورٹریٹس اور تصاویر اُتروا دی تھیں۔ شہزادہ صاحب نے اپنے اِس ’’کارنامے‘‘ کو ’’اسلام کی حقیقی روح کے مطابق‘‘ قرار دِیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ سردار محمد یوسف نے علامہ اقبال اور قائداعظم کے اُن پورٹریٹس اور تصاویر کا کیا کِیا؟ لیکن اسلام آباد کی حد تک اُن کا نظامِ صلوٰۃ کا کارنامہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن پورے ملک میں مکمل اسلام ضرور نافذ کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سردار محمد یوسف نے قرآن پاک کے آغاز میں یقیناً پڑھا ہوگا کہ ’’یہ کِتاب (قرآن مجید) اس میں کوئی شک نہیںکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کی راہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور (آداب کے ساتھ) نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو عطا فرمایا اس میں سے (انسانوںکی بھلائی پر) خرچ کرتے ہیں‘‘۔ قیام پاکستان کے 67 سال 8 ماہ17 دِن بعد (فی الحال) اسلام آباد میں نظامِ صلوٰۃ (جُزوی اسلام) نافذ ہوگیا ہے۔ مکمل اسلام نافذ ہونے/ کرنے میں کتنی مُدت لگے گی؟ شاعرِ سیاست تو رجائیت پسند ہیں انہوں نے تو اپنے اس ’’سیاسی ماہیا‘‘ میں قوم کو یقین دہانی کرادی ہے کہ …؎
’’ ساڈے پوتریاں دے بال ہوسن
اونہاں دی اخیری عُمرے
غریب غُربے خُوشحال ہوسن‘‘