الطاف بھائی کی معافی اور بلوچستان کی تلافی
الطاف حسین بھائی کی کچھ باتیں اچھی لگتی ہیں مگر پھر وہ ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے وہ جاگیرداری نظام کے خلاف بات کرتے ہیں مگر اب ان کی ایم کیو ایم میں بھی جاگیردارانہ ذہنیت بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ مڈل کلاس کے لئے بات کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے مگر مڈل کلاس ماڈل کلاس کیوں نہ بن سکی۔ اسمبلیوں میں بظاہر مڈل کلاس گئے۔ پہلے پہل جینوئن مڈل کلاسیئے اسمبلی میں گئے تھے۔ اب تو عمران خان کی تحریک انصاف میں بھی غریب نہیں ہیں غریب تو اس ملک میں صرف بدنصیب ہو چکا ہے۔
میں وہ آدمی ہوں کہ پنجاب میں سب سے پہلے ایک ٹی وی چینل پر الطاف بھائی کا انٹرویو کیا۔ وہ ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں لانا چاہتے تھے۔ مگر لگتا ہے کہ اسے ”بین الاقوامی“ دھارے میں لایا جا رہا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ متحدہ قومی موومنٹ بنائی گئی۔ مگر اس کے بعد ایم کیو ایم کے اتحاد میں ایک پارٹی عناد اور گروپنگ کا فساد بھی نمایاں ہوا۔ الطاف بھائی بہت گہرے آدمی ہیں اور کبھی کبھی سطحی انداز میں باتیں بھی کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ اورمہاجرقومی موومنٹ بنتی تو ایم کیو ایم ہی ہے۔ اس میں کیا راز ہے؟ کیا مقصد ہے؟
جب الطاف بھائی تفتیش کے لئے پولیس دفاتر پہنچے تو انہوں نے وہاں کچھ دوستوں کا سہارہ لیا ہوا تھا۔ انہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جبکہ وہ برطانیہ میں ہوں تو برطانوی شہری ہیں وہ پاکستان تو آتے ہی نہیں وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی نثراد برطانوی ہیں۔ میرے خیال میں ایک آدمی کے پاس دو شہریتیں ہونا ہی نہیں چاہئے۔ اس طرح ڈبل گیم ہوتی ہے اور ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے جس کا بقول وزیراعلیٰ سندھ خود انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا الطاف بھائی جب ضمانت میں توسیع کے بعد اپنے گھر ایم کیو ایم سیکرٹریٹ پہنچے تو یہ نعرے لگے۔ مہاجروں کے دل کا چین الطاف حسین الطاف حسین۔ پاکستانیوںکے دل کا چین تو وہ ہو بھی نہیں سکتے۔ ان کی سیاست کے مطابق یہ ہوسکتا تھا۔ کراچیوں کے دل کا چین الطاف حسین الطاف حسین۔
مجھے تو نہیں لگتا کہ کراچی میں اب کوئی مہاجر بچا ہو، جس نے واقعی ہجرت کی ہو۔ ان کی اولادیں ضرور ہیں۔ جو کراچی میں پیدا ہوئے وہ تو مہاجر نہ ہوئے اب ایک ہی مہاجر ایم کیو ایم میں ہے اور وہ قائد تحریک الطاف حسین بھائی ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے انگلستان میں ہجرت کی ہے اور واپس نہیں آئے۔
جب فتح مکہ کے لئے رحمت اللعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے وہ مہاجر اعظم ہیں مگر انہوں نے مکہ کی بجائے مدینہ کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکی ساتھی صحابہؓ نے سوچا کہ وہ اتنی مدت کے بعد اپنے پرانے شہر مکہ بھی جا رہے ہیں۔ وہاں کچھ دن رہیں گے اور پرانی یادیں تازہ کریں گے مگر جب حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ آپ کے ساتھ واپس مدینہ آگئے۔ اب مدینہ ان کا گھر تھا۔ قائد تحریک الطاف حسین بھائی سے محبت رکھنے والے ان کے پاس انگلستان چلے جائیں۔ یا ان کو اپنے پاس واپس بلا لیں۔ وہ جب بھی پاکستان آنے کےلئے کہتے ہیں تو کراچی والے انہیں روک دیتے ہیں۔ انہیں آنے ہی نہیں دیا جا رہا ہے اور یہ محبت میں کیا جا رہا ہے۔ اب الطاف بھائی نے ایسی پیشکش سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اب کراچی والوں کے کیا ارادے ہیں۔ یہاں الطاف بھائی آگئے تو یہاں کے سیاستدانوں اور رابطے کمیٹی کے ممبران کا کیا بنے گا۔ ویسے ان کی سیاست یہاں زوروں پر ہے۔
ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ انہیں معافی مانگنا پڑتی ہے۔ یہ تعداد اب اتنی ہو چکی ہے جتنی عمران نے یوٹرن لئے ہیں یہ کتنی دکھی بات ہے کہ ایک بڑے لیڈر کی سیاسی زندگی میں معافیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لگتا ہے وہ اسی ڈھیر پر کھڑے ہو کر بات کرتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے اپنی پوری زندگی میں ایسی بات نہ کی کہ انہیں sorry کہنا پڑے۔ اتنی بڑی بے مثال جدوجہد کے دوران ایک دن کے لئے بھی مخالف انہیں جیل میں ڈال نہ سکے۔ ایسی مثال صرف مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی ہے کہ اتنی بہادری اور بے باکی کے باوجود ایک دن کے لئے بھی انہیں جیل میں نہ ڈالا جا سکا۔ الطاف حسین بھائی نے کبھی قائداعظم کا ذکر نہیں کیا ایم کیو ایم میں قائد تحریک الطاف بھائی کا ذکر بار بار ہوتا ہے یہ وابستگی کی اچھی مثال ہے مگر قائداعظمؒ کا نعرہ کبھی نہیں لگایا گیا۔
الطاف بھائی نے کہا کہ میں نے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سے مدد لینے کا ذکر طنزیہ کیا تھا۔ طنز میں ایک رمز بھی ہوتی ہے۔ اس کی تشریح بھی کر دی جائے۔ معافی دل والے لوگ مانگتے ہیں مگر ہمارے سب سیاستدانوں نے یہ روٹین بنا لی ہے۔ معافی ٹھیک ہے مگر معافی کی تلافی بھی ہوتی ہے؟ اس کے بعد کا رابطہ کمیٹی کے دوست اور دوسرے اہم لوگ وضاحتوں کا انبار لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، اظہار الحسن اور دوسرے کئی لوگوں سے ایک دوستی ہے مگر دوستی میں ایک بات کہہ دوں کہ الطاف حسین بھائی دن کو رات کہہ دیں تو ایم کیو ایم والوں کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین بھائی کا نام لے اور بس۔
پاک فوج کو کراچی میں حالات ٹھیک کرنے کی دعوت ایم کیو ایم والوں نے اور الطاف بھائی نے دی تھی تو پھر اس عداوت کے کیا معانی ہیں؟ کسی ملک میں اپنے ملک کے خلاف بات نہیں ہوتی اور اپنے ملک کی فوج کے خلاف بھی بات نہیں ہوتی تو ایسی باتیں کیوں ہوتی ہیں کہ عوام کا ردعمل آئے۔ عوام فوج سے محبت کرتے ہیں اور اس کا کریڈٹ نشان حیدر کی وارث فیملی کے جنرل راحیل شریف کوبھی جاتا ہے اور ان سب لوگوں کو جنہوں نے الطاف حسین بھائی کی گفتگو کا برا منایا۔ پرویز رشید نے بھی کہ قومی سلامتی ارادوں پر تنقید کرنے والوں سے قانون کے مطابق نبٹا جائے گا۔ برادرم کرنل ضرار ایم کیو ایم کے لئے بہت کچھ جانتے ہیں کہ وہ اس سندھ کے دوست ہیں جو پاکستان ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس طرح الطاف حسین نے پوری قوم کا دل دکھایا ہے۔ نوازشریف نے بھی بات کی ہے۔ جنرل سلیم باجوہ کا بیان بہت غم و غصے والا ہے۔ یہ غم و غصہ بہت جینوئن ہے اور جائز ہے۔
الطاف حسین کی ضمانت میں توسیع نہ ہوتی تو ایم کیو ایم کے لئے مشکلات ہوتیں۔ اس بات کے پیچھے بات کیا ہے؟ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ایم کیو ایم نے کام کیا ہے۔ ملتان میں راﺅ خالد اور پورے پنجاب میں برادرم افتخار رندھاوا نے کام کیا ہے اور بھی لوگ یہاں آتے جاتے رہے ہیں مگر رابطہ کمیٹی میں ایک بھی ممبر پنجاب کا نہیں ہے۔ افتخار رندھاوا کو اس لئے رابطہ کمیٹی کا ممبر نہ بنایا جائے کہ وہ دوست ہے۔ اس نے وفا کی انتہا کر دی ہے۔ حیدر عباس رضوی کا اندازگفتگو بہتر ہے۔
بلوچستان سب صوبوں پر بازی لے گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کچھ مایوس سے تھے مگر پہلی قرار داد ان کی طرف سے متفقہ طور پر آئی ہے۔ بلوچستان کے لئے منفی پروپیگنڈا کرنے والے ”پاکستانی دانشور“ اور بلوچستان میں عارضی مداخلت کرنے اور کرانے والے سوچیں کہ بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ وابستگی غیر مشروط اور لازوال ہے۔ کراچی والے بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ بلوچوں کے آباﺅ اجداد کے ریفرنڈم کے بغیر پاکستان کی حمایت کر کے ایک مثال قائم کر دی تھی۔ اب گوادر پورٹ کی اور گوادر سے کاشغر تک اکنامک کاریڈور دنیا میں ایک بے مثال منصوبہ ہے۔ اس کے لئے سازشیں کرنے والے بھی منہ کی کھائیں گے۔ زیارت میں دھماکے کے بعد پاکستان مخالف لابیاں خوش ہوئی تھیں کہ اب ان کی ناخوشی کا کیا حال ہے۔ پاکستان اور پاک فوج پر کوئی بات آئے تو قوم ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں نوجوان زیادہ ہیں۔ یہ کل کا پاکستان ہے اور کل کا پاکستان ایک نیا زمانہ ساتھ لائے گا۔ الطاف حسین بھائی سے میری گزارش ہے کہ ان کی سب حیثیت اور مقام پاکستان کی وجہ سے ہے۔ وہ ہوشیار رہیں اور محتاط رہیں۔