کیا پِدی۔ اور کیا پِدی کا شوربہ
اماں، اماںمیں پائلٹ بن گیا ہوں اور اب جہاز اڑائوں گا۔ مگر بیٹا مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میرا بیٹا جہاز اڑا رہاہے۔ بوڑھی ماں نے پوچھا۔ بیٹے نے جواب دیا اماں جب میں اپنے گھر کے اوپر سے گزروں گا تو بم گرائوں گا۔ کچھ یہی حال پاکستان میں بسنے والے اور اسکو لوٹ کر کامیابیاں سمیٹنے والے تاجروں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ قارئین! صرف ستر سال پہلے جب ہم نے آزادی حاصل کی تو اس کی بھاری بھرکم قیمت ہمارے آبائواجداد کو چکاناپڑی۔ انسانی تاریخ کی یہ پہلی تقسیم اور ہجرت تھی جس کے نتیجے میں تقریباً پانچ ملین سے زائد انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ بہار، آسام اور بنگال سے آئے لاکھوں مہاجرین پاکستان کے طول و ارض میں پناہ گزیں ہو گئے۔ البتہ کراچی میں رہائش اختیار کرنے والے اس وقت کے مہمان آج تک خود کو مہاجر ازم کے دائرے سے باہر نہ نکال سکے اور اس کو تقویت ضیاء الحق (مرحوم) کے دور میں اس وقت ملی جب مرحوم ضیاء الحق نے سیاسی جماعتوں کو دبانے کیلئے مہاجر ازم کا شوشہ کھڑا کر دیا جو آج ایک مکمل ناسور بن کر ملک و وطن کی رگوں میں پھیل چکا ہے۔ قارئین! آپ مجھے موجودہ پاکستان کے اس حصے کی نشاندہی کر دیں کہ جس کی مقامی زبان اردو ہو یا مجھے پاکستان میں وہ شہر یا صوبہ دکھا دیں جہاں کا موسمی یا روایتی لباس شیروانی ہو۔ یقینا آپ ایسا نہیں کر سکیں گے ہم نے وفاق کو متحد رکھنے کیلئے درآمد کی گئی زبان اور لباس کو بطور قومی قبول کر لیا حالانکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونیوالے بھارت میں آج بھی ہندی زبان قومی درجہ نہیں حاصل کر سکی۔ گذشتہ روز ایم کیو ایم کے قائد جو اس وقت برطانیہ میں پچھلے 23سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور متعدد دفعہ قومی پرچم جلانے سمیت بھارت سے اظہار یک جہتی، رشتے داری اور محبتیں جتلا چکے ہیں۔ پچھلے دنوں حلقہ این اے 246جیتنے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت یکسر یہ فراموش کر بیٹھی کہ اسی شہر کراچی کے پچیس ایم این ایز ، آٹھ سینیٹرز اور ساتھ ممبران صوبائی اسمبلی اور صوبے کے گورنر کی مکمل سپورٹ انہیں حاصل تھی۔اتنی مضبوط لابی اور قیادت کی موجودگی میں ایم کیو ایم کا اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشست دوبارہ جیت لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔جہاں متحدہ کو ساڑھے تین لاکھ میں سے 95ہزار ووٹ ملے۔گویااڑھائی لاکھ ووٹرز کا متحدہ کو اعتماد حاصل نہیں ہے۔ دراصل ایم کیو ایم کی حالت اس شرارتی بچے جیسی ہے جو ہر روز شیرآیا، شیر آیا کی صدائیں دیتا تھا اور جب ایک دن شیر آ ہی گیا تو اس کا کام تمام ہوا۔ پچھلے کم از کم دو سال سے ایم کیو ایم کی قیادت فوج کو براہ راست آپریشن کی دعوت دیتی چلی آ رہی ہے اور جب فوج کا ایک ذیلی ادارہ رینجر استحکامِ پاکستان کیلئے آپریشن میں جُت گیا تو ایم کیو ایم نے چیخنا، چلانا شروع کر دیا۔ دراصل الطاف بھائی اور انکے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ کراچی میں انکے مدِ مقابل تمام پاور شیئرنگ گروپس کیخلاف تو آپریشن کیا جائے مگر ثمرات اکیلی ایم کیو ایم سمیٹے۔ دراصل صولت مرزا، معظم علی اور طاہر لمبا سمیت متعدد اعترافات اور لندن میں چلنے والے کیسز کے دبائو کی وجہ سے ایم کیو ایم کی قیادت بوکھلا گئی ہے اور ماضی کی طرح ایک بار پھر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘اور بھارتی حکومت سے مدد مانگنا شروع کر دی مگر جب پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی اور عسکری قوت نے مونچھوں کو بَل دیا تو الطاف بھائی کا سارا نشہ ہرن ہو گیا اور موصوف کویاد آیا کہ وہ شیر کی کھچار میں سر پھنسا بیٹھے ہیں۔ پھر الطاف بھائی کی طرف حسب معمول معافیوں، تلافیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور گذشتہ روز رابطہ کمیٹی لندن اور رابطہ کمیٹی کراچی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں بھارتی حکومت اور’’را‘‘ کیخلاف بظاہر دل کھول کر مذمت کی گئی مگر اس سے پہلے پاکستان کی نو بڑی جماعتوں اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظو رکی جس میں ایم کیو ایم پر پابندی لگانے اور الطاف بھائی کو غدار قراردینے کی سفارش کی ہے۔ یاد رہے یہ وہی بلوچستان ہے جس میں چند شرپسندوں کو بھارت سپورٹ دیکر اپنے ذہن میں کئی منصوبے بنائے بیٹھا ہے۔قارئین! محبان وطن اور ملک کی ساری سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں لانے کا تہیہ کر چکی ہیں مگر ایک بار پھر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایسے کسی اقدام کو سپورٹ نہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جس کا اظہار قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کر چکے ہیں۔جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستان کے سیاسی ناخدا جِن کو ختم کرنے کی بجائے بوتل میں بند رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں تاکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ انکے اپنے کنٹرول میں رہے۔ میرے پاس بیٹھا ہوا جھورا جہاز مجھ سے مسلسل یہ تکرار کر رہا ہے کہ ہم بحیثیت ایک زندہ اور آزاد قوم برطانیہ سے یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھاتے کہ لندن میں یونین جیک کے نیچے بیٹھا ہوا ایک شخص جب بھی چاہتا ہے رات کی تاریکی میں مدہوش ہو کر پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کیخلاف بولنا اور ماحول بنانا شروع کر دیتا ہے۔ کیا ملکہ برطانیہ یہ پسند کریں گی کہ ملکہ کا کوئی بھگوڑا کراچی میں بیٹھ کر شمالی آئرلینڈ یا سکاٹ لینڈ کی مملکتوں کو یونین جیک سے جدا کرنے کے منصوبے تیار کرے۔ قارئین! میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان کا ایک انتہائی مخیر شخص الطاف بھائی کے نام پر کراچی اور حیدرآباد میں دو یونیورسٹیاں بنا رہا ہے مجھے شک ہے کہ ان جامعات میں حصولِ علم کیلئے آنیوالے طالب علم الطاف بھائی کے رویئے، لہجے اور تکلم سے مختلف ہونگے؟ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ وڑائچ صاحب آپ پریشان نہ ہوں کہ کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ۔