’’جسمانی بیماری کا کوئی جواز نہیں‘‘
ممکن ہے یہ بات قارئین کو عجیب لگے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک جسمانی بیماری کا کوئی جواز نہیں ہے البتہ جس طرح انسان آجکل خوف خدا سے عاری ہوکر ایک دوسرے کو ذہنی صدمات بلکہ جھٹکے پہنچا رہا ہے‘ نفسیاتی پیچیدگیاں ایک دوسرے پر پھینک رہا ہے‘ جذباتی دبائو‘ روحانی انتشار و خلفشار‘ جنگ کی تباہ کاریاں‘ آپس کے جھگڑے‘ تنازع اور اخلاقی کھوکھلا پن پھیل رہا ہے۔ یہ سب یقیناً امراض ہیں جن کو اپنی سہولت کیلئے لوگوں نے مختلف انگریزی نام دیدیئے ہیں جبکہ جسمانی بیماری کی کوئی روحانی بلکہ سائنسی توجیہہ موجود نہیں ہے۔ سائنس نے دوا ایجاد کی ہے۔ بیماری تخلیق نہیں کی ہے۔ میں سمجھتی ہوں اگر بیماری مرض الموت نہیں ہے تو پھر یہ انسان کی اپنی تخلیق کردہ ہے کہ وہ یہ ہمارے روحانی ضعف اور درماندگی کا نام ہے۔ اگر ہم اندر سے نفسیاتی اعتبار سے کمزور ہیں‘ اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں‘ بدی کی ابلیسی قوتوں کو خود پر غالب آنے میں‘ انکی مدد کر رہے ہیں بلکہ انکو خود پر حملہ آور ہونے کی مہلت اور اجازت دے رہے ہیں تو سادہ الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ہم قرآن حکیم کی حکمت سے انکار کر رہے ہیں۔ اسکی طبابت سے ’’روگردانی‘‘ کر رہے ہیں اور اپنے مذہب سے کلی طورپر کٹ رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ یہ ہماری جسمانی بیماری کیلئے خطرے کا الارم ہے۔ ہم روحانی طورپر بیمار پڑنے والے ہیں بلکہ ہمارا مکمل Moral Decay (اخلاقی تنزل) شروع ہو چکا ہے۔ اس خطرے کا سب سے بڑا توڑ بلکہ علاج یہ ہے کہ انسان اپنی تمام تر اخلاقی کمزوریوں‘ حرام کی کمائی اور سیاہ کاریوں سے تائب ہوکر فوری طورپر مذہب کی پناہ میں چلا جائے کیونکہ صرف اسی علاج سے ہمارا اندر صاف ستھرا اور مضبوط رہ سکتا ہے اور ہر قسم کی جسمانی بیماری کو شکست دی جا سکتی ہے۔ گوکہ یہ بھی صحیح ہے کہ گر ہم اسی فیصد روحانی صحت پر یقین رکھیں تو پھر بھی بیس فیصد امکانات بہر صورت جسمانی بیماری کے موجود رہتے ہیں کیونکہ عمر کے حوالے سے بھی مٹی کے اس بت نے یقینا بُھرنا ہے‘ کھرنا ہے‘ گلنا سڑنا ہے یا فنا ہو جانا ہے۔ ظاہر ہے انسان ناپائیدار مشینری ہے اس لئے بگڑ بھی سکتی ہے۔ ختم بھی ہو سکتی ہے‘ تاہم یہ طے کر لینا چاہئے کہ محض بیس فیصد جسمانی بیماری یا فنا کے خطرات کے پیش نظر اسی فیصد روحانی بالیدگی اور صحت و سلامتی کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا چنانچہ ہونا یہ چاہئے کہ جسمانی بیماری کے نظریئے کو یکسر رد کرتے ہوئے انسان کو اپنی قوت ارادی کے ذریعے روحانی صحت و آسودگی پر ہر لمحہ توجہ دینی چاہئے تاکہ اسکی روح جوکہ مالک کائنات کی براہ راست تخلیق ہے اور اس کا حصہ ہے اسکے ساتھ رابطے میں رہے اور اگر رابطے میں نہیں ہے تو ہونا چاہئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان روحانی اعتبار سے پاکیزہ ہے‘ تازہ ‘ بالیدہ ہے‘ بیدار ہے اور زندہ ہے تو پھر اس کا شمار بیماریوں یا نیم مردوں میں نہیں ہو سکتا۔
اب سوچنا بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود آج کا انسان کیوں انوکھی انوکھی اور طرح طرح کی بیماریوں میں گھر گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی سب سے بڑی اور ٹھوس وجہ اس کا اخلاقی تنزلی اور ہر سطح پر پھیلی ہوئی بے راہ روی اور بے ایمانی ہے۔ حرام کی کمائی اور سود سے کھائی‘ کھلائی ہوئی خوراک‘ قتل و غارت کرکے لوٹا ہوا پیسہ‘ رشوت اور منشیات کے زہر سے نچوڑا ہوا عیش و عشرت کا تریاق سب کچھ قادرِ مطلق کے حساب سے گزرنے بلکہ اسکے احتسابی چھانپڑے میں سے دانہ دانہ ہو کر الگ ہوتا جا رہا ہے آپ ایک طرف منہ میں نعمت کا لقمہ ڈالتے ہیں دوسری طرف وہ آپکی جیب سے جسمانی بیماری کے نام پر نکلتا جاتا ہے یوں سمجھیے کہ دس روپے کی حرام کی کمائی سے سو روپیہ فی دن دوائی کی گنجائش نکلتی جا رہی ہے گویا ایک طرف سکون قلب اور کلی صحت خریدی جا رہی ہے دوسری طرف بیماری و بیقراری بھی ساتھ ساتھ جاری و ساری ہے یقین کیجئے ناجائز دولت کی افراط سے ایسی ایسی عجیب و غریب اور ناقابل دید و یقین بیماریاں پھیلتی جا رہی ہیں کہ سائنسدانوں کیلئے ان کے علاج ڈھونڈنے تو شاید آسان ہوں مگر نام دریافت کرنے مشکل ہوتے جا رہے ہیں بہر حال تمام واقعات و حقائق کے حوالے سے اگر تھوڑی دیر کیلئے سنجیدگی سے سوچا جائے تو یہ ناقابل تردید حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آج سے صدیوں پہلے جب لوگ ہر سطح پر سادہ تھے، ٹھوس اخلاق کے مالک تھے۔ روحانی اور ذہنی اذیت دینے یا سہنے پر مجبور نہ تھے ان کی عمریں کئی کئی سو سال ہوتی تھیں جبکہ ان کی جسمانی صحت مندی اور روحانی تازگی کا دوسرا راز یہ تھا کہ وہ والدین کے اخلاقی تنزل اور حرام کی کمائی کی پیداوار نہ تھے اس لئے ان میں تمام تر انسانی اقدار اپنی اصل اور مکمل طور پر نکھری ہوئی صحت مند حالت میں موجود تھیں جس کی وجہ سے ظاہر ہے وہ خود بھی روحانی اور جسمانی طور پر قابل رشک صحت کے مالک تھے بہر حال طے یہ پایا ہے کہ جسمانی بیماری کا کوئی جواز نہیں ہے اگر لوگ ایک دوسرے کو روحانی طور پر ٹھونگنے، نوچنے اور ڈسنے سے باز آجائیں نیکی اور نیک نیتی اپنا لیں۔ اخلاقی پستی سے تائب ہو جائیں تو معاشرہ ہر اعتبار سے کلی طور پر صحت یاب ہو سکتا ہے۔ میرا بس چلے تو میں تمام ڈاکٹروں، حکیموں اور طبیبوں کو اس بات کا پابند کروں کہ وہ کسی بھی مریض کو جسمانی بیماری کی دوا دیتے وقت سختی سے ہدایت کریں کہ اس نے یہ تمام دوائیں صرف نماز پڑھنے کے بعد استعمال کرنی ہیں ورنہ دوا بے اثر ثابت ہو گی اس طرح انکے اندر عبادت کی جڑ پکڑ جائیگی اور انکی بیماری کے بیک وقت دو علاج ہو جائینگے روحانی بھی اور جسمانی بھی یہاں تک کہ جسمانی بیماری کا جواز آہستہ آہستہ بالکل معدوم ہوتا جائے گا یہ نسخہ آزما دیکھئے۔