• news

محمد بن نایف و محمد بن سلمان کا عہد اقتدار

چند روز پہلے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ مقرن کو منصب سے محروم کرکے ان کی جگہ مغرب کے تعلیم یافتہ‘ اپنے باپ نایف بن عبدالعزیز کے القاعدہ کے حوالے سے تربیت یافتہ اور داعش کے حوالے سے جرأت و دلیری کی داستانیں رقم کرنیوالے شہزادہ محمد بن نایف کو ولی عہد اول اور نائب وزیراعظم مقرر کر دیا ہے بہت طویل مدت تک وزیر خارجہ رہنے والے بیمار سعود الفیصل نے مستعفی ہونے کو بہتر جانا اور امریکہ میں سعودی جنگ یمن کے ترجمان و سفیر عادل الجبیر کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ شاہ بننے کے بعد سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے نوجوان اور بہت زیادہ متحرک بیٹے محمد بن سلمان کو وزیر دفاع بنایا تھا اب انہیں ولی عہد دوم بنا دیا گیا ہے اس نوجوان قیادت کے سامنے آنے کا معاملہ ہم بار بار نوجوان اصحاب کہف کے انداز جرات و دلیری کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے (پارہ 15 سورہ الکھف آیت نمبر 13 ) اس کا مطلب ہے کہ کبھی کبھی تدبر و فراست کے پیکر بزرگ قائدین و فیصلہ سازوں کی نسبت توانائی و جرأت سے زیادہ مزین نوجوان قائد شخصیات تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کیلئے آ جاتی ہیں۔ اس تبدیلی کو آل سعود میں اقتدار کی کشمکش کا نام نہیں دینا چاہئے جیسا کہ مغربی اور پاکستانی میڈیا کے کچھ سازشی عناصر نے بار بار بیان کیا ہے۔ ماضی بعید میں ولی عہد شہزادہ فیصل نے جرأت کر کے شاہ سعود کو تخت سے محروم کیا تھا، یہ بہت بڑی تبدیلی تھی آل سعود کیلئے مگر سعودی علماء اورآل سعود نے شہزادہ فیصل کا ساتھ دیکر موجود ابتلاء کا خاتمہ بھی کر دیا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز نے خود سب سے پہلے شہزادہ محمد بن نایف اور شہزادہ محمد بن سلمان کی بیعت کی ہے تو دوسری طرف انکے بیٹے منصور کو بھی رائل کورٹ میں مشیر بنایا گیا ہے البتہ شہزادہ محمد بن نایف کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سعودی عرب اور مسلمان امت کیلئے وہی اثاثہ ثابت ہو جائینگے جو شہزادہ فیصل شاہ بن کر ثابت ہوئے تھے بصورت دیگر انہیں بھی شہزادہ مقرن کی طرح موجودہ منصب اور مستقبل کے شاہی منصب سے محرومی کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہم نے نہایت محبت سے شہزادہ محمد بن نایف کے سامنے یہ تلخ متوقع حقیقت اس لئے بیان کی ہے کہ ہم میدان عرفات میں عالمی میڈیا کانفرنس میں ولی عہد شہزادہ نایف بن عبدالعزیز سے مل چکے ہیں اور انکے تدبر وفراست کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں، توقع رکھنی چاہئے کہ دونوں شہزادے مدبر اورمستقبل بین و حقیقت پسند ثابت ہو جائینگے۔ ان شاء اﷲ شاہ بننے کے بعد سلمان بن عبدالعزیز نے ڈاکٹر عبدالعزیز خوجہ کی جگہ ایک صحافی اور تجزیہ نگار عادل بن زید کو وزیر ثقافت و اطلاعات بنایا تھا اس کا مطلب ہے شاہ سلمان کا عہد میڈیا وصحافت کو زیادہ توجہ کا مستحق سمجھتا ہے اور باصلاحیت افراد کو منصب دینا ترجیح بنائے ہوئے ہے۔ کیا جناب عادل بن زید الطریفی کومعلوم ہے کہ سعودی عرب کے خلاف پاکستانی میڈیا میں کیا کیا منفی باتیں ہوتی رہی ہیں؟ مغرب و امریکہ میں ممالک لابسٹ فرموں (شخصیات) کی خدمات حاصل کرتے ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے شاید ’’لابی‘‘ کرنیوالی شخصیات کی سعودیہ کو ضرورت ہے کسی مدبر پاکستانی کو وزارت خارجہ یا ثقافت و اطلاعات کا کنسلٹنٹ مقرر کرنا بھی اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے شاہ سلمان اورولی عہد کو پاکستان کے اندر سے اب ایک ذاتی معاون اورمشیر کی شدید ضرورت رہے گی۔مستقبل میں سعودی عرب کو ایسی منفی اور تلخ سیاسی صورتحال کا اچانک سامنا نہ کرنا پڑے اور وزیر مذہبی امور یا مشیرمذہبی امور یا امام کعبہ کو بھیج کر اپنا سیاسی مؤقف صحیح ثابت کرنے کی ضرورت نہ آ پڑے۔ وقت آ گیا ہے کہ سعودی فیصلہ ساز صرف کچھ حامی دینی جماعتوں سے تعلقات پر اکتفا نہیں کریں بلکہ دیگر مذہبی اعتدال پسندوں سے بھی تعلق اپنائیں۔ شاہ سلمان نے شاہ عبداﷲ کے آخری ایام میں مقرر کردہ وزیر مذہبی امور سلیمان بن عبداﷲ اباالخیل کی جگہ دوبارہ سے الشیخ صالح بن عبدالعزیزآل شیخ کو وزیر بنایا تھا وہ حالیہ دورہ پاکستان کے ذریعے اس منصب کیلئے خود کو اہل ثابت کر چکے ہیں ماشاء اﷲ انہوں نے مذہبی قیادت کو پاکستان میں سعودی عرب کا گرویدہ بنا لیا ہے اس حوالے سے سفارت خانے کی شخصیات اور مکتب الدعوۃ کے مدیر کا کردار نمایاں رہا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز 55 سالہ نے شہزادہ محمد بن نایف بن عبدالعزیز کوولی عہد اول و نائب وزیراعظم مقرر کرکے انہیں فیصلہ ساز بنا دیا ہے وہ وزیر داخلہ بدستور رہیں گے مستقبل میں وقت آنے پر وہ بادشاہ بنیں گے انشاء اﷲ جبکہ اپنے 30 سالہ نوجوان بیٹے محمد بن سلمان کو وزیر دفاع کیساتھ ساتھ ولی عہد دوم مقرر کر دیا ہے۔ سعودی عرب میں اصل تبدیلی یہ آئی ہے کہ شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کی موجودگی میں انکے پوتوں کیلئے اقتدار کا راستہ کھول دیا گیا ہے لہٰذا نئے بادشاہ شاہ عبدالعزیز کے پوتے ہونگے۔ کہا گیا ہے جناب عادل الجبیر پہلے شخص ہیں جوآل سعود سے نہ ہو کر بھی وزیربنے ہیں اس میں صرف اتنی صداقت ہے کہ وزیر خارجہ‘ داخلہ‘ دفاع ہمیشہ آل سعود کے افراد رہے ہیں اور عادل الجبیر کے ذریعے پہلی بار کسی غیر آل سعود کو یہ منصب ملا ہے مگر عملاً عادل الجبیرنے امریکہ میں خود کو متحرک ترین عرب ترجمان کے طور پر پیش کرکے سعودی عرب کو سیاسی فتح دلوائی ہے۔ میڈیا شخصیات کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ شاہ عبدالعزیز کے عہد سے ہی کچھ ایسی شخصیات کو وزیر بنا لیا جاتا تھا جو شاہی خاندان سے نہ تھی۔ شاہ عبدالعزیز نے محمد سرور الصبان کو وزیر مالیات بنایا تھا ڈاکٹر احمد یمانی بعد ازاں وزیر ثقافت و اطلاعات تھے ڈاکٹر عبدالعزیز خوجہ کو شاہ عبداﷲ نے یہی منصب دیا تھا۔ شاہ فیصل نے ذکی یمنی کو وزیر تیل بنایا تھا جبکہ نیشنل بینک ریاض کے صدر ایک پاکستانی محمد علی کو سعودی سٹیٹ بینک کا گورنر بنا کر وزیر کا پروٹوکول دیا گیا تھا سعودی عرب کی طرف سے بار بار کہا گیا ہے کہ عرب دنیا سے باہر صرف پاکستان سے سیاسی اور فوجی مدد طلب کی گئی ہے تاکہ ثابت ہو جائے کہ یمن کے حوالے سے خلیج تعاون کونسل ممالک کیساتھ ساتھ ایک غیر عرب اسلامی ملک (پاکستان) بھی اس سیاسی جنگ میں شریک ہے۔

ای پیپر-دی نیشن