الطاف حسین کی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کیوں؟
ایم کیو ایم کے گرفتار ملزموں سے دوران تفتیش ’’را‘‘ کے ساتھ رابطوں اور تربیت لینے اور قتل عام کرنے کے اعترافی بیانات کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر کراچی رائو انوار نے ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کو میڈیا کے سامنے بے نقاب کرکے ملک بھر میں ہلچل مچا دی۔ ایم کیو ایم کی درجہ بہ درجہ قیادت کے خلاف سنگین ترین نوعیت کے الزامات لگائے اور ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ بھی قابل مذمت زبان میں ماں‘ بیٹی‘ بہن کے حوالے سے طعنہ بازی اور دشنام طرازی کی حدیں پار کرکے اپنا ’’مقام و مرتبہ‘‘ عوامی نگاہوں میں گرا دیا۔ جو تھوڑی کسر رہ گئی تھی‘ وہ پاک افواج 1971ء کی جنگ اور آپریشن کے تناظر میں ساری فوجی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر حاضرین سے تالیاں بجوا کر رسوا کرنے کا جذباتی اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ’’تماشا‘‘ لگایا۔ ’’تمہاری چھڑیاں رہیں گی نہ ستارے رہیں گے۔ غدار ہتھیار پھینکنے والی فوج ہے یا پاکستان بنانے والے مہاجر ہیں۔‘‘ مزید بھی کئی طرح کے بالواسطہ چیلنج کئے‘ خصوصاً ’’را‘‘ سے ہدایت لینے‘ تربیت کے تناظر میں ’’را‘‘ کو ایم کیو ایم کی مدد کرنے (حقیقتاً ) اور سندھ کے دریا میں کس کا خون بہتا ہے۔‘‘ جیسے غیر ذمہ دارانہ اور قابل مذمت بیان کا ارتکاب کیا۔ قومی قیادت اور بلوچستان اسمبلی کی قراداد اور الطاف حسین کے خلاف شدید متفقہ ردعمل کے بعد الطاف نے قومی سلامتی کے اداروں سے معافی مانگ لی۔ قبل ازیں میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے سرکاری بیان میں صاف کہ دیا تھا کہ ’’الطاف حسین کا بیان بے ہودہ‘ نفرت انگیز اور غیر ضروری ہے۔ فوجی قیادت کے خلاف اس طرح کے بیانات برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے اور نشانہ فوج بنتی ہے۔ عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔‘‘
اس قومی سلامتی کے بڑے معاملے پر وزیراعظم پاکستان کے بیانات نامناسب ہیں۔ پہلے ان کی تمام وزارتیں نرم اور دیر سے ردعمل دینے میں کوشاں نظر آئیں‘ وزیراعظم نے فوج کا دفاع کمزور طورپر کیا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہہ دیا کہ ’’فوج کی ساکھ کا خیال رکھنا حکومتی ذمہ داری ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ’’الطاف کی معذرت بہتر اقدام ہے۔‘‘ وزیردفاع خواجہ آضف کو سب سے سخت بیان دینا چاہئے تھا‘ پھر وزیراعظم کو بھی منہ توڑ جواب دینا چاہئے تھا۔ فوجی ردعمل سخت ترین ہے اور وزیراعظم پاکستان ’’الطاف حسین کی معذرت بہتر اقدام ہے۔‘‘ کہہ کر ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی پر چلنے لگے ہیں؟؟ تو کیا جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈر کے مؤقف ’’عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی‘‘ کے خلاف جانا چاہتے ہیں؟ وزیراعظم تو یہ کہتے ہیں کہ فوج کی ساکھ کا خیال رکھنا حکومتی ذمہ داری ہے۔‘‘ تو کیا فوجی کمانڈرز اور وزیراعظم کا لائن آف ایکشن جدا ہے؟؟ فوجی کمانڈرز ’’کس طرح کا‘‘ قانونی چارہ جوئی کا راستہ اپناتے ہیں‘ یہ بڑا اہم سوال ہے؟؟ وقت آنے پر ہی جواب مل سکے گا۔ قائد تحریک الطاف حسین نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ پاکستان مخالف بیانان دئیے جو نظریہ پاکستان ہی کیخلاف تھے۔ کبھی وہ بار بار ان ہی فوجی جرنیلوں کو نجات دہندہ قرار دیکر جمہوری حکومت ختم کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں دیتا کبھی وہ آئیگی آئیگی ایک دن فوج آئیگی۔ کا نعرہ لگاتے ہیں کبھی جمہوریت پر یقین کا اظہار کرتے ہیں پھر ذہنی دبائو، غصے ، بڑے مقدمات میں شکنجہ کسے جانے اور ایم کیو ایم قیادتوں پر ممکنہ سنگین مقدمات، تفتیش ملزمان کے بیانات کے تناظر میں افواج کیخلاف زبان درازی کرتے ہیں پھر اچانک معافی مانگ لیتے ہیں؟ یہ سب متضاد رویے اور اعمال ان کی ’’شخصیت‘‘ پر کئی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں سب سے بڑا نقصان خود ایم کیو ایم کا ہوتا ہے 15 سال کے بار بار کے الٹے سیدھے زاوئیے ایم کیو ایم کو قومی جماعت نہیں بننے دیتے!!الطاف حسین کو کراچی یا دیگر شہروں میں ہزاروں افراد کے قتل و معاشی قتل کے ملزمان کو بچانے کیلئے ناروا زبان استعمال نہیںکرنی چاہئے اور محتاط اور ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ کی پالیسی اپنانی چاہئے۔ بڑے قائد کی بار بار معافی مانگنے کی روش ایک مذاق ہی ہے قوم البتہ الطاف حسین کی ’’آرمی بیشنگ‘‘ ARMY BASHING مہم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگی ساری پاکستانی قوم اپنے خلاف کر لینا الطاف حسین کی سیاسی ناپختگی کے سوا کیا ہے۔ افواج پاکستان اللہ تعالیٰ کے بعد ملکی سلامتی کی ضامن ہیں ان کو کمزور یا بد دل کرنے کی مذموم کوشش کی اجازت نہیں دی جا سکتی یہ ملکی سلامتی کے خلاف قدم ہو گا۔