کئی حلقوں کے اضافی بیلٹ پیپرز کی فہرست جوڈیشل کمشن میں پیش: پرنٹنگ اداروں کے سربراہ پرسوں طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت نیوز+ آئی این پی) مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کےلئے قائم جوڈیشل کمشن میں حلقہ این اے 146اور دیگر میں اضافی بیلٹ پیپرز کی فہرست پیش کر دی گئی۔ سابق الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور نے دستاویزات پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ الیکشن کمشن کے کاغذات ہیں، حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ مطالبے کے باوجود الیکشن کمشن نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی، جس پر کمشن نے الیکشن کمشن کو دستاویزات کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمشن کے وکیل سلمان اکرم نے موقف اختیار کیا کہ دستاویزات 76 جلدوں پر مشتمل ہیں ہر جلد کیسے پڑھ سکتے ہیں، اعتزاز احسن نے ریٹرننگ افسر کے ”پولنگ بیگ میں کچرا موجود ہے“ کے بیان سے متعلق متعلقہ ریٹرننگ افسر کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کر دیا، کمشن نے تھیلوں کے معائنے کی محبوب انور کی رپورٹ ثبوتوں کا حصہ بنا دی ہے۔ کمشن نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو پیر کو طلب کر لیا۔ جوڈیشل کمشن کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اور پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے تیسرے گواہ سابق صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب انور محبوب پر اب تک کی جرح مکمل کرلی ہے کمشن نے 11مئی کو ہونے والی آئندہ سماعت پر منیجنگ ڈائریکٹرز پاکستان پرنٹنگ پریس کارپوریشن کراچی، لاہور، اسلام آباد کے بالترتیب مظفر علی، محمد رفیق، مسرور رضا آفندی چانڈیو، پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشنک کراچی اور پوسٹل فاﺅنڈیشن پریس اسلام آبادکے 5سرکاری گواہوں کوطلب کرلیا ہے، الیکشن کمشن کے وکیل کی جانب سے پی ٹی آئی کے پیش کردہ ریکارڈ پر اعتراض پر فریقین وکلاءکو کمشن کے معاون کے کے آغا، سیکرٹری کمشن محمد حامد کے ساتھ مل بیٹھ کرپڑتال کرنے کی ہدایت کی گئی، جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمشن، مسلم لیگ ن ، پی ٹی آئی سمیت دیگر فریقین سے کہا ہے کہ وہ اپنے گواہوں کی فہرست اور اضافی مواد پیر سے پہلے کمشن میں جمع کرائیں، کمشن نے کہا ہے کہ کارروائی مختصر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فریقین وکلاءاپنی جرح جلد از جلد مکمل کریں کمشن کارروائی کو طول نہیں دینا چاہتا۔ کمشن کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے جرح پرگواہ انور محبوب نے تسلیم کیا کہ اضافی بیلٹ پیپرز کیلئے ریٹرننگ افسروں کی جانب سے مختلف درخواستیں آئی تھیں، ریٹرننگ افسروں نے3 سے لیکر 30 فی صد تک اضافی بیلٹ پیپرز مانگے تھے جو فراہم کردیئے گئے، حالانکہ الیکشن کمشن نے اس کیلئے ایک ہی طرح کا تحریری فارمولا طے کیا تھا۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمشن نے کیس کی سماعت کی تو صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب انور محبوب پر پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا یہ بتاےا جائے کہ کل سے اب تک کسی سے کمشن کی کارروائی بارے بات ہوئی ؟ رابطہ ہوا؟ آپ نے یہ انگریزی اخبار پڑھا ہے؟ انور محبوب نے کہا کہ ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوا وہ سیدھے گھر سے آرہے ہیں۔ انہوں نے کوئی اخبار بھی نہیں پڑھا، عبدالحفیظ پیر زادہ نے انگریزی اخبار کمشن میں پیش کرتے ہوئے بتاےا کہ اس میں انور محبوب کا بےان چھپا ہے کمشن میں انہوں نے حلف اٹھاےا تھا کمشن نے سختی سے ایسے کسی اقدام سے روکا تھا اس کے باوجود اخبار کو بیان دیا گیا اگر اس طرح چلتا رہا تو پی ٹی آئی ڈیمانڈ کرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سماعت ان کیمرہ کی جائے جس پر چیف جسٹس نے گواہ کی سرزنش کی، حفیظ پیر زادہ نے سوال کےا کہ کےا وہ فارم 5بارے جانتے ہیں؟ انور محبوب نے جواب دےا کہ وہ ریٹرننگ امیدواروں کی فہرست ہوتی ہے اس میں ریٹرننگ افسروں کی جانب سے پیپر چھاپنے کی ڈیمانڈ لسٹ نہیں ہوتی وہ علیحدہ ہوتی ہے ،پی ٹی آئی کے وکیل نے فارم 5دکھاتے ہوئے کہا کےا آپ نے پہلے یہ دیکھا ہوا ہے ؟ انور محبوب نے کہا کہ یہ میرا کاغذ نہیں اور اس پر کسی کے سائن بھی موجود نہیں میں نے یہ کاغذ پہلی بار دیکھا ہے، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل مداخلت کرتے ہوئے گواہ کو بتا رہے ہیں کمشن اس کا نوٹس لے، چیف جسٹس نے شاہد حامد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھیں مداخلت نہ کریں۔ یہ این اے 95سے متعلق ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہ پی ٹی آئی کا ریکارڈ غیر مصدقہ ہے وہ انہیں فراہم نہیں کےا گےا، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں نے تین دن قبل ریکارڈ کےلئے الیکشن کمشن سے رابطہ کےا متعدد بار ےاد کراےا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دےا ،سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ میں اس سے انکار نہیں کررہا مگر ایسے 76والیم ہیں الیکشن کمشن مذکورہ دستاویزات کو کس طرح چیک (تصدیق) کرے ان کے کا غذات کی تعداد لاکھو ں میں ہے چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمشن سے تصدیق تو ہونی چاہئے ،پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ یہ الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جس سے محکمہ انکار نہیں کرسکتا ےا محکمہ ان کاغذات کو منظور کرے ےا مسترد کرے ،سلمان اکرام راجہ نے کہا ویب سائٹ میں غلطےاں بھی ہیں اس کا مطلب کہ پی ٹی آئی کے کاغذات میں غلطےاں ہوں گی ، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا وہ اس حوالے سے بےان حلفی دے چکے ہیںسرکاری کاغذات کا ریکارڈ 60فیصد تک ہے، بعد ازاں کمشن نے پی ٹی آئی کے وکیل کو الیکشن کمشن کے کاغذات سے متعلق جرح سے روک دےا کہ جب ریکارڈ کی تصدیق اور پڑتال ہوجائے گی تب اس حوالے سے جرح کی جائے گی ،کمشن نے کہا کہ حفیظ پیر زادہ اپنے دلائل ابھی مکمل کریں دوبارہ جرح کے لئے انہیں نئی درخواست دینا پڑے گی، حفیظ پیر زادہ نے اس موقع پر جہانگیر ترین اور عمران خان سے مشورہ کےا کہ وہ الیکشن کمیشن کے کاغذات کے حوالے سے جرح بعد میں دوبارہ درخواست دے کرکرلیں گے ، اب تک کی دیگر جرح مکمل کریں گے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے سوال کےا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب راﺅ افتخار احمد کو ،کب؟ اور کیوں فون کال کی تھی ؟ جس پر انہوں نے کہاکہ انہوں نے راﺅ افتخار کو 9مئی کو نہیں بلکہ 7مئی کو فون کیا تھا اور 100سے 200افراد فراہم کرنے کیلئے کہا تھا،جب پیرزادہ کی جانب سے یہ پوچھا گیا کہ وہ افراد کس لئے بلائے گئے تھے ؟ تو محبوب انور نے بتایا کہ وہ افراد پرنٹنگ کے کام کیلئے بلائے گئے تھے نہ ہی ان افراد کو اردو بازار سے منگانے کی بات کی تھی بیلٹ پیپرز پر نمبر لگا کر ان کی بائنڈنگ کے لئے بلایا گیا تھا تاہم افراد صوبائی حکومت کی جانب سے صرف 78 افراد فراہم کئے گئے تھے جنہیں پرنٹنگ پریس کارپوریشن اسلام آباد بھیجا گیا مجھے معلوم نہیں انہوں نے کب کام ختم کےا اور ان کا تےار کردہ میٹریل کہاں کہاں گےا میرا ترسیل سے کوئی تعلق نہیں ترسیل کے بعد انوائس کاپی جو آئی تھیں وہ میرے آفس کے ریکارڈ میں ہوں گی ، بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے فنڈز اور ادائیگی پرنٹنگ پریس نے کی تھی ،پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ریٹرننگ افسروں سے زائد بیلٹ پیپرز مانگنے کی وجہ پوچھی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں پوچھی تھی، عبدالحفیظ پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن کے دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کب سے کب تک تھی؟ انہوں نے بتایا کہ الیکشن سے اڑتالیس گھنٹے قبل سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی جو حتمی نتائج آنے تک جاری رہتی ہے، پیز رزادہ نے پوچھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے الیکشن کے نتائج آنے سے قبل ہی ایاز صادق کے حلقے میں جاکر اپنی جیت کا اعلان کردیا تھا جسے ٹی وی چینلز نے نشربھی کیا تھا، کیا آپ کو اس بات کا علم تھا؟ جس پر انور محبوب نے کہا کہ اس روز انہیں ایسی کسی تقریر کا علم نہیں تھا تاہم بعد میں وہ تقریر دیکھی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے بھی انور محبوب پر جرح کی تاہم ان کے اکثر سوالات کا تعلق ان کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کے حلقہ این اے 124تک محدود تھا جہاں سے وہ ناکام ہوئی تھیں، کمشن کے رکن جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ آپ مجموعی دھاندلی پر فوکس رکھیں کسی ایک خاص حلقے کی بات نہ کریں یہ معاملہ ٹربیونلز میں زیر سماعت ہے، مگر اعتزاز احسن نے جرح بھی حلقہ این اے 124سے متعلق کی۔ انہوں نے فارم 1سے 17تک بارے انور م©حبوب سے استفسار کےا ،گواہ انور محبوب کا جواب میں کہنا تھا کہ ویسٹ پولنگ میٹریل آر اوز کے پاس ہوتا تھا یہ بیگز میں پی او کے پاس جاتا اس میں بیلٹ پیپرز، سٹمپ پیڈ، وغیرہ شامل ہوتے جو رپورٹ صوبائی کمشن نے جاری کی وہ انہوں نے کی تھی وہ اس سے متفق ہیں اور مانتے ہیں ،اعتزاز احسن نے کہا کہ الیکشن کے دوران پنجاب کے قومی اسبلی کے کاسٹ ووٹوں کی تعداد 2کروڑ80لاکھ کے قریب تھی جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں کاسٹ ووٹوں کی تعداد 2 کروڑ 71لاکھ تھی ،انور محبوب نے جواب دےا مجھے ےاد نہیں۔ الیکشن کے وکیل سلمان اکرام نے کہا کہ پٹی ٹی آئی نے گزشتہ روز جن حلقوں کی بات کی تھی ان میں سے وہ 50حلقوں کا درست ریکارڈ لائے ہیں اس حوالے سے وہ جرح کریں گے چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہ ریکارڈ جمع کرواےا؟ فریقین وکلاءکو دےا؟ اگر نہیں تو پہلے یہ جمع کرائیں اور فریقین وکلاءکو دیں اس کے بعد اس کی بات اور اس حوالے سے جرح کرسکتے ہیں۔ بعد ازاں فاضل کمشن نے کارروائی پیر تک ملتوی کرتے ہوئے بیلٹ پیپرز چھاپنے اور ریٹرننگ افسروں تک پہنچانے کے حوالہ سے جرح کے لئے پرنٹنگ پریس کارپوریشن ڈی جیز مظفر چانڈیو، محمد رفیق، مسرور رضا آفندی ، سکیورٹی پرنٹنگ پریس اسلام آباد کے رضوان احمد اور پوسٹل پرنٹنگ پریس کے ڈائریکٹر اعجاز احمد 5سرکاری گواہوں کو 11 مئی کو کمشن میں طلب کرلیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بعد میں بھی دوبارہ دجرح کرنا چاہئے گا تو اسے کمشن کی اجازت لیکر اور درخواست دائر کرنا ہوگی ۔اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ 9 لاکھ فالتو ووٹ پڑے‘ این اے 124 میں فرضی نتیجہ بھرا گیا‘ سابق الیکشن کمشنر کی رپورٹ کے مطابق این اے 124 کے تھیلوں کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ 264 تھیلوں میں سے 152 ایسے تھے جن کی یا تو سیلیں توڑ دی گئیں یا ان پر مہر ہی نہیں لگائی گئی تھی اس کے بعد 112 بیگ باقی بچتے ہیں جن میں سے 49 بیگ ایسے ہیں جن میں فارم 14 نہیں پایا گیا اور 55 بیگز ایسے ہیں جن مےں فارم 15 نہیں پایا گیا۔ فارم 14 کے بغیر کبھی بھی فیئر نتیجہ مرتب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ این اے 124 لاہور میں فرضی نتیجہ بھرا گیا۔ اب یہ جوڈیشل کمشن کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ منظم دھاندلی تھی یا نہیں۔ اگر منظم دھاندلی تھی تو کس کی ایما پر کی گئی۔
جوڈیشل کمشن