گو چیئرمین گو صدیق الفاروق اور ’’صدر‘‘ زرداری
اس سے خدانخواستہ مراد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نہیں ہے۔ اسے ’’صدر‘‘ زرداری نے یہ نام دیا اور پارٹی کا سرپرست بنا دیا۔ سرپرست ہمیشہ بزرگ آدمی ہوتا۔ بلاول شاید اندر سے بزرگ ہے۔ اپنی ماں کی طرح بلکہ اپنے نانا کی طرح جسے انہوں نے دیکھا بھی نہیں ہے۔ بلاول کے ساتھ ’’صدر‘‘ زرداری کی تصویریں کس کو دھوکہ دینے کے لئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ غنویٰ بھٹو کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ غنویٰ نے کس کو دھوکہ دیا ہے کہ فاطمہ بھٹو کو آگے بلکہ اپنے آگے نہیں آنے دیا۔ خود مرتضیٰ بھٹو کی وارث بن گئی ہے۔ حالانکہ دونوں کی شادی فاطمہ بھٹو نے کروائی تھی۔ سوتیلی بیٹی کا یہ کردار ناقابل یقین ہے مگر غنویٰ بھٹو کا کردار ناقابل برداشت ہے۔ وہ اپنے سگے بیٹے ذوالفقار بھٹو جونیئر کو اپنے پیچھے پیچھے لا رہی ہے۔ غنویٰ بھٹو کی سیاست میں ناکامی یقینی تھی۔ فاطمہ بھٹو کو سامنے آنا چاہئے تھا۔ وہ اپنی خود غرض سوتیلی ماں سے بغاوت کرتی۔ لوگ خوش ہوتے۔ غنویٰ کو کون بھٹو کا وارث سمجھتا۔ فرخ سہیل گوئندی نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ سچے دوست اور پولیٹکل ایکٹوسٹ ہیں۔ اب وہ انقلابی ناشر ہیں مگر اپنے اشاعتی ادارے کا نام جمہوری پبلیکیشنز رکھا ہے۔
گو چیئرمین گو کا نعرہ متروکہ وقف اوقاف بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کے لئے ہے۔ یہ بات ابھی ہو گی۔ پہلے یہ سن لیں کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے حکومت کو ’’حکم‘‘ دیا ہے کہ جڑانوالہ کے پارٹی رہنما رانا شفقت کے قاتل فوراً گرفتار کئے جائیں۔ رانا صاحب کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ انہوں نے اپنی پنجاب قیادت کو ہدایت کی ہے کہ مقتول یا شہید کے گھر جائیں۔ اور ان کو اور ان کے اہل خانہ کو مکمل قانونی اور اخلاقی امداد فراہم کریں۔ انہوں نے کسی قسم کی معاشی امداد کی بات نہیں کی۔ وہ ایوان صدر میں ہوتے تو مدد کا اعلان ضرور کرتے۔ اب یہ بھی حکومت سے مطالبہ کریں گے۔
’’صدر‘‘ زرداری کی عزیز ترین بیٹی آصفہ بھٹو زرداری ان سے اب بھی یہ پوچھ نہیں سکے گی کہ ہماری والدہ اور اپنی اہلیہ شہید بی بی کے قاتل گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ جبکہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ کسی قانونی امداد کا اعلان بھی نہ کیا۔ انہوں نے خود کہا کہ میں شہید بی بی کے قاتلوں کو جانتا ہوں مگر کسی کا نام آصفہ بی بی کو بھی نہیں بتایا۔ یہ نام دوسرا بندہ صرف رحمن ملک جانتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں وقت آنے والا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے ڈریں گے۔ صدر زرداری آج کل پریشان ہیں۔ وہ صرف حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ انہیں یہ پریشانی بحریہ ٹائون والے ملک ریاض کی وجہ سے ہے۔ بلاول ہائوس لاہور لال قلعہ دہلی سے بھی زیادہ زبردست ہے۔ ملک ریاض کے لئے خفیہ ایجنسیاں ’’کوئی‘‘ تحقیق کر رہی ہیں؟ ان سے زیادہ امیر کوئی نہیں ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ وہ موازنے کے قائل نہیں ہیں۔ لفظ ’’تھے‘‘ پر غور کریں۔ الطاف حسین کے نام پر دو یونیورسٹیوں کے نام تبدیل کرنے کی خواہش ان کو ہو گی۔ جیسے یہ نام رکھتے ہوئے تھی۔ تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی آئی نہیں۔ اس وقت صرف چودھری نثار کے لئے سنا ہے کہ وہ ملک ریاض کے خلاف ہیں۔ وہ خوددار اور دلیر آدمی ہیں۔ ان کی بات نواز شریف کے لئے ’’اہم‘‘ ہوتی ہے۔ سیاست میں وفا نام کی چیز ہے تو وہ صرف چودھری نثار علی خان کے پاس ہے۔ ہر مشکل کو حسب حال کچھ دے دلا کر آسان بنانے والے ملک ریاض اب کیا کرتے ہیں؟
اپنے خلاف گو چیئرمین گو کے نعرے لگانے والے ملازمین کو صدیق الفاروق نے جیل بھجوا دیا۔ چیئرمین سے دھیان عمران خان کی طرف بھی جاسکتا ہے مگر ان کے لئے رو عمران رو کا نعرہ مخالفین کو پسند ہے۔ حیرت ہے کہ کئی مہینے تک گو نواز گو کا نعرہ لگتا رہا۔ مگر ایک آدمی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ جتنے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ انہوں نے کیا اس کی مثال کم کم ہے۔ اس کا فائدہ بھی ان کو ملا۔ یہ نعرہ تحلیل ہو گیا اب شیخ رشید بھی نہیں لگاتا مگر نواز شریف ابھی تک قائم ہیں۔ ایک فرق ہے کہ گو وزیراعظم گو کا نعرہ کبھی نہ لگا۔ اسی طرح گو صدیق الفاروق گو کا نعرہ نہیں لگا۔ برادرم خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نواز شریف کے لئے کچھ نہ کچھ پریشانی لاتے رہتے ہیں۔ البتہ سعد رفیق کے جیتنے کے چانس بہت تھے۔ ری الیکشن میں ان کے مقابلے میں حامد خان ہوں گے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا حلقہ انتخاب کہاں کہاں ہے۔ حلقہ کے لوگوں نے انہیں پوری طرح دیکھا بھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ممتاز سینئر صحافی اور کالم نگار سعید آسی کا کالم مخولیہ سیاست کے شاہکار بہت شاندار ہے۔
مظاہرین نے صدیق الفاروق کے لئے نوازشریف سے التجا کی ہے کہ ان سے ہمیں نجات دلائی جائے۔ ان کے تکبر اور رعونت بھرے رویے کی بات بھی سننے میں آئی ہے یہ تو ہے کہ کوئی کام کرنے والا اور دیانتدار آدمی کسی ادارے میں اتفاق سے آ جاتا ہے تو ملازمین اس کے خلاف ہو جاتے ہیں جو مل کر کھانے اور کام نہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
صدیق الفاروق کے تکبر کا مجھے پتہ نہیں ہے میں اس کے لئے بے خبر ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کبھی انہوں نے ایسا رویہ اپنایا ہو مگر پاکستان میں بندے کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ اللہ کا بندہ نہ رہے اور کسی بندے کا بندہ بن جائے۔ میرے ساتھ بھی وہ معمولی سی بات پر ناراض ہوئے تھے۔ میرے بارے میں تاثر دیا جا رہا ہے کہ میں نوازشریف اور شہبازشریف کے کاموں کی تعریف نہیں کرتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مجھے دونوں بھائیوں کے جلا وطنی کے دنوں میں تعریفی فون آتے تھے۔ مگر ’’ہموطنی‘‘ کے اپنے تقاضے ہیں۔ میں ان کی اس معاملے میں بے حد تعریف کر رہا ہوں کہ دونوں بھائیوں نے جنوبی پنجاب کے لئے بڑی معرکہ آرائی کی ہے۔ بے چارے صدیق الفاروق نے بھی بہت انتظار کیا کہ ان پر کوئی مہربانی ہو۔ آخر کچھ مہربانی ہو ہی گئی قربانی والے سنگی کی اتنی آزمائش تو بہت ضروری ہے؟ البتہ میں یہ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ صدیق الفاروق بہت دیانتدار اچھے کردار کے آدمی ہیں۔ میں تو سیدھی بات جانتا ہوں کہ اختلاف کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہے یہ دونوں باتیں سچائی کے ساتھ کسی کالم نگار میں ہونا چاہئیں۔ مگر ہمارے حکمران ہر دور میں صرف ایسے ہی لوگوں کو نوازتے ہیں۔ حامی وہ ہے کہ دوست کو اس کی خامی کی نشاندھی بھی کرے۔
صدیق الفاروق نے جنرل مشرف کے زمانے میں جیلیں بھی کاٹیں ایک وزیر جنرل جاوید اشرف قاضی تو انہیں کبھی نہیں بھولے گا۔
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو ہم تم کو نہیں بھولے