عمران فاروق کیس میں پیش رفت دو، تین روز میں سامنے آئے گی”را“ کی مداخلت بے نقاب کریں گے، 93 ہزار ووٹ جعلی نہیں، جج قیاس آرائی پر شٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے: نثار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبرنگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ عمران فاورق قتل کیس میں دو تین روز میں پیشرفت ہو گی۔ این اے 122 میں 93 ہزار ووٹ غیرتصدیق شدہ ہیں، جعلی ہیں، جج تماشے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں، نادرا کی رپورٹ میں خامی ہے تو بتائیں؟ چودھری نثار نے کہا ہے کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ، اسلحہ لائسنس کا اجرائ، بلٹ پروف گاڑیاں اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کے حوالے سے نئی پالیسی مرتب کر رہے ہیں، صوبوں سمیت عوام سے بھی آراءمانگی ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ مل چکی، اہم پیش رفت کا امکان ہے، این اے 122 کا فیصلہ نادرا یا میڈیا نے نہیں کرنا ، بھارتی مداخلت سے آگاہ ہیں، ثبوت جلد سامنے لائیں گے، ای سی ایل میں سیاسی بنیادوں پر کوئی نام شامل نہیں ہوا، بلٹ پروف گاڑی فیشن بن گئی، 25سال سے کم عمر کو اسلحہ لائسنس جاری نہیں کریں گے، نجی سکیورٹی ایجنسیوں کا ڈیٹا بینک تشکیل اور ملازمین کی انشورنس یقینی بنائیں گے، ایف آئی اے میں کرپشن برداشت نہیں، حکم امتناعی لینے والے افسروں کے خلاف خود عدالتوں میں جاﺅں گا، سیاست سے بالاتر ہو کر تمام کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچاﺅں گا، ایف آئی اے افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی سمری وزیراعظم ہاﺅس بھجوا دی۔ وہ اتوار کو پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ چودھری نثار نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے، 1981-82ءسے اب تک 7500پاکستانی ای سی ایل میں ہیں، فیصلہ کیا ہے کہ اعلیٰ عدالتی احکامات یا تحقیقاتی ایجنسیوں کی سفارش پر ای سی ایل میں نام ڈالا جائے گا، کئی کیسز کئی برسوں سے ای سی ایل پر ہیں، ایک بے نام خط آیا، جس کا کیس 1988ءسے ای سی ایل پر ہے۔ یہ بنانا ری پبلک نہیں واضح قوانین ہونے چاہئیں، ہم پالیسی بنا رہے ہیں کہ ابتدائی طور پر ایک سال کے لئے ای سی ایل میں نام ڈالا جائے، ای سی ایل میں نام رہنے کی آخری حد 3سال ہو گی، ان تین برس کے دوران ہر چھ ماہ بعد از سر نو جائزہ لیا جائے گا کچھ کیسز الگ ہوں گے جن میں کالعدم تنظیموں کے عہدیداران، حساس تنصیبات پر کام کرنے والے افراد جن کے نام بھی تین سال تک ہی ای سی ایل پر رہ سکیں گے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ بلٹ پروف گاڑیاں فیشن بن گئی ہیں، بلٹ پروف گاڑیوں کےلئے ڈیٹا بینک ہونا چاہیے اور صرف ایسے لوگ ہی بلٹ پروف گاڑیاں حاصل کر سکیں جو ٹیکس بھی دیتے ہوں، بلٹ پروف گاڑیاں لائسنس کے تحت بننی چاہئیں، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اس سے سیکیورٹی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ وزارت سنبھالتے ہی اسلحہ لائسنسوں کے اجراءپر پابندی لگائی، وفاق اور پنجاب کے سوا تینوں صوبوں نے یہ پابندی ختم کر دی۔ ہم چاہتے ہیں کہ نادرا کے ذریعے اسلحہ لائسنس کا اجراءہو،31 دسمبر تک جن اسلحہ لائسنسوں کی تجدید نہ کرائی گئی وہ یکم جنوری 2016ءکو منسوخ ہو جائیں گے، اسلحہ لائسنس کی جانچ پڑتال کے بعد 4500 لائسنس جعلی نکلے، ممنوعہ بور کا لائسنس کے خواہش مند کا ٹیکس دہندہ ہونا چاہئے، ممنوعہ بور کا لائسنس صرف اس شخص کو جاری ہو جس کی جان کو خطرہ ہو، موجودہ دور حکومت میں کسی نجی سکیورٹی کمپنی کی منظوری نہیں دی، متعدد نجی سکیورٹی کمپنیوں میں ایسے افراد بھرتی ہیں جو اسلحہ چلانا بھی نہیں جانتے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے خود احتسابی کرتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کی، سیاست سے بالاتر ہو کر تمام کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچاﺅں گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں دوسرے ملکوں کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کے معاہدوں کا غلط استعمال ہوا،صرف سری لنکا اور تھائی لینڈ سے 70مجرم جنہیں پچاس پچاس سال کی سزا ہوئی تھیں پاکستان لائے گئے اور ان میں سے صرف 10 جیلوں میں ہیں،ان میں ایک منشیات سمگلر19مرتبہ پاکستان آ اور جا چکا ہے، الیکشن سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار الیکشن ٹربیونلز اور عدلیہ کو ہے ، یہ ٹیکنیکل ایشو ہے، آئینی و قانونی دائرے میں رہ کر کام کیا جائے تو سب کا بھلا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں معاونت کے شعبے میں گرفتار ملزم کی جے آئی ٹی تفتیش مکمل کرلی گئی ہے، اگلے دو یا تین دنوں میں حقائق میڈیا کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان میں بھارتی ایجنسی”را“ کی مداخلت کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ہم بہت ساری چیزوں سے آگاہ ہیں اور بھارتی مداخلت کے ثبوت بہت جلد سامنے لائے جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل این اے 122بارے میں نادرا کی رپورٹ پر قیاس آرائیاں کرنے اور اپنی مرضی کے نکالنے والوں کو شٹ اپ کالز کیوں نہیں دیتے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ این اے 122کا فیصلہ نہ تو نادرا رپورٹ نے اور نہ ہی میڈیا نے کرنا ہے۔ ٹربیونل ججز سب کو شٹ اپ کالز کیوں نہیں دیتے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیر داخلہ نے کہا کہ الکیشن ٹربیونلز کے باہر تماشے لگائے جا رہے ہیں۔ این اے 122میں 93ہزار ووٹوں کو جعلی کہنے والے خدا کا خوف کریں۔ جن ووٹوں کی شناخت نہیں ہوئی وہ جعلی نہیں ہیں۔ شناخت اس لئے نہیں ہوئی کہ کاغذ یا سیاہی ٹھیک نہیں تھی۔ مجھ اس تماشے کی سمجھ نہیں آئی۔ ٹربیونل کے ججز تماشا لگنے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں؟ ہر کوئی اپنا میڈیا پر پوائنٹ آف ویو دے رہا ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے ججز سب کو شٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے۔ ٹربیونل ہو یا اعلیٰ عدالتیں تمام سٹیک ہولڈرز کی زبان بندی کرائیں۔ بی بی سی کے مطابق وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ایف آئی اے سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے کمیٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہیں