نوازشریف اور آرمی چیف آج اہم دورے پر کابل جائیں گے، افغان قیادت کو ان کی سرزمین پر ’’را کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بارے میں تحفظات سے آگاہ کرینگے: ذرائع
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پاکستان افغانستان تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک روزہ اہم دورہ پر آج اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ افغانستان جائیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کریں گے، دونوں ممالک میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوں گے، دہشت گردی کے خاتمے سمیت باہمی تعلقات کے فروغ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اجلاس میں پاکستان افغانستان تعلقات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری، چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات اور دیگر سینئر افسروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دورہ افغانستان کے دوران وزیراعظم نواز شریف افغان صدر اشرف غنی سے ون آن ون ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم کی دیگر مصروفیات میں افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات اور افغانستان کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی شامل ہیں۔ دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری اور دیگر اعلیٰ افسر بھی افغانستان جائیں گے۔ ترجمان کے مطابق یہ وزیراعظم کا دوسرا دورہ افغانستان ہے جبکہ نئی افغان حکومت کی تشکیل کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل نواز شریف نے 30 نومبر 2013 کو افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ قاضی خلیل اللہ کے مطابق افغانستان کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم نواز شریف کے 'پرامن پڑوس' کے وژن کا بنیادی کلیہ بھی یہی ہے۔ اجلاس میں دورہ کابل کی تیاری کا جائزہ لیا گیا اور مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے دورے میں پاکستان افغانستان ترجیحی تجارت کے سمجھوتے کے لئے بات چیت شروع کرنے کے لئے ایم او یو پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف یہ دورہ افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر کر رہے ہیں۔ افغان صدر وزیراعظم نواز شریف کو اپنے حالیہ دورہ بھارت کے بارے میں اعتماد میں لیں گے۔ آرمی چیف ان ملاقاتوں میں شرکت کے علاوہ افغان عسکری قیادت کے ساتھ الگ ملاقاتیں بھی کریں گے۔ واضح رہے وزیر اعظم کے دورہ سے چار روز قبل آئی ایس آئی کے سربراہ بھی کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تین اعتبار سے اس دورہ کی خاص اہمیت ہے۔ افغان قیادت سے ملاقاتوں اور مذاکرات کے دوران دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف کی موجودگی سے استفادہ کرتے ہوئے وزیراعظم، افغان سرزمین سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو کو آگاہ کرتے ہوئے انہیں پاکستان دشمن سرگرمیوں کے انسداد کیلئے تجاویز دیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں ’’را‘‘ کو پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ وزیراعظم کی دیگر مصروفیات میں افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور افغانستان کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی شامل ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اعلیٰ ترجیح ہے۔ وزیراعظم کے پرامن ہمسائیگی کے وژن کا اہم جزو بھی ہے۔ وزیراعظم کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات بے مثال گرمجوشی، باہمی اعتماد اور پرامن اور مستحکم خطے کی تشکیل کے حوالے سے مل کر کام کرنے کا مشترکہ وژن سے عبارت ہیں۔ وزیراعظم کے دورے سے دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور خطے میں پائیدار امن، استحکام اور خوشحالی کی مشترکہ کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ذرائع کے مطابق ’’را‘‘ کی افغانستان کے راستے پاکستان میں عدم استحکام کی کوششوں پر اپنے تحفظات سے افغان حکومت کو آگاہ کیا جائیگا۔ پاکستانی وفد تین اہم امور پر افغان حکام سے مذاکرات کرے گا اور افغان حکام کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کرے گا۔ پاکستان کو ’’را‘‘ کی طرف سے پاکستان مین عدم استحکام پیدا کرنے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔ افغانستان میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک موجود ہے جسے پاکستان میں عدم استحکام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ افغان حکام کو اس بارے میں تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ آپریشن ضرب عضب اور مولانا فضل اللہ کے معاملات بھی زیربحث آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان افغان حکومت اور افغان طالبان کے مذاکرات کی حمایت کر رہا ہے۔