فیصل آباد نیو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے دورہ فیصل آباد کے موقع پر فیصل آباد کی تعمیروترقی اور فیصل آباد کو واقعی پاکستان کا مانچسٹر اور ایک بین الاقوامی سٹی بنانے کے پروگرام اور عزائم کے حوالہ سے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی سے رائے طلب کی اور اپنے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ فیصل آباد میں اسلام آباد کے بینظیر بھٹو اور لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ جیسا ایئرپورٹ ہونا چاہیے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے وہاڑی کے دورے کے دوران قوم کو ایک نیا نعرہ ’’پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے‘‘ دیتے ہوئے کہا کہ تبدیلی اور ترقی نعروں سے نہیں عمل، جدوجہد اور مسلسل عمل سے آتی ہے۔ اس مقولہ اور سلوگن میں بڑی جان اور حقیقت پوشیدہ ہے کہ زندگی کی تاریکیوں کے خلاف جہاد مسلسل ہی کامیابی و کامرانی کی منزلیں قریب سے قریب تر ہو جاتی ہیں جبکہ فیصل آباد میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر کی چند ارکان اسمبلی نے زبردست مخالفت کی۔ بدقسمتی سے وہ اپنے ماتھے پر عوامی نمائندگی کا جھومر بھی سجائے ہوئے ہیں۔ ان چہروں کی نقاب کشائی اور بطن کی سیاہی پر آگے چل کر بات کریں گے لیکن پہلے ذرا تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کر لیں۔ جس زمانہ میں حضرت قائداعظم کی قیادت و سیادت میں قیام پاکستان کی تحریک اپنے عروج پر تھی انہیں دنوں آج کا ترقی یافتہ اور دنیا کی معیشت پر اپنی حکمرانی کا پرچم لہرانے والا جاپان اپنی تاریخ کی بدترین شکست و ریخت سے دوچار تھا۔ برصغیر میں سبزہلالی پرچم لہرانے کی آرزو، قومی آواز اور نعرہ بن چکی تھی اور جاپان کا جھنڈا سرنگوں ہو رہا تھا۔ پاکستان تخلیق کے مرحلہ میں اور جاپان تخریب کی لپیٹ میں (جیسے ان دنوں دہشت گردی اور را گردی کی لپیٹ میں پاکستان ہے) اور برصغیر میں ایک نیا ملک جنم لینے والا تھا۔ دوسری جنگ عظیم جاپان کو مٹا رہی تھی اور دوسرے کئی ممالک کو آزادی کی راہ دکھا رہی تھی لیکن آج یہ کیا منظر ہے کہ کھنڈروں میں دب جانے والا جاپان صنعت و حرفت اور معیشت کے میدان میں صف پر دکھائی دیتا ہے مگر میدانوں، دریاؤں، پہاڑوں اور سمندروں کا مالک پاکستان ’’مسائلستان‘‘ دکھائی دیتا ہے جس مشینری اور مصنوعات پر جاپان کی مہر لگی ہو اس کے لئے کوئی سند مانگنے کی ضرورت نہیں۔ہر حکمران کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے کیسی ٹیم کا انتخاب کرے۔ کام اور مشاورت کے لئے اچھے لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہوتے ہیں اور ان کی مشاورت میں خدائی برکت شامل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے انعام سے بھی نوازتے ہیں اور اگر مشیر جاہ پرست، موقع شناس اپنے مفادات کے غلام اور ہوس زر ہی ان کا مطمع نظر ہو ان کا کچھ بگڑے نہ بگڑے حکمران اور اس کے اقتدار کو لے ڈوبتے ہیں۔ موجودہ حکومت جن ارمانوں اور امیدوں کے ساتھ قائم ہوئی ہے بدقسمتی سے تھوڑے ہی عرصے میں محبوبیت کے مقام سے نیچے آ گئی ہے کہنے کو تو عوام کا بے صبرا پن کہہ سکتے ہیں اور عمران خان جیسے مخالفین کا نفسیاتی پروپیگنڈہ آصف علی زرداری کا نہیں، بات چونکہ فیصل آباد کے نئے انٹرنیشنل معیار کے ایئرپورٹ کی مجوزہ تعمیر اور منصوبہ پر ہو رہی ہے اور مشاورت کی ہے تو جنرل ضیاء الحق کے باز سے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنی والی شخصیت ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ درست نہیں بلکہ میاں برادران سرفہرست دکھائی دیتے ہیں اور چھوٹے میاں صاحب کا اقتدار بڑے میاں صاحب سے طویل ہے۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ضیاء الحق کے ساتھ‘‘ میں تحریر کیا ہے ان کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر درانی سے سوال کیا کہ تین ایسے لوگوں کے نام بتائیں جنہوں نے ضیاء الحق کی شخصیت کو سب سے زیادہ ضعف پہنچایا تو انہوں نے مسٹر محمد اسلم خٹک، لیفٹیننٹ جنرل رفاقت اور جنرل حمید گل کا نام لیا۔ اسی طرح ان سے پوچھا گیا کہ تین ایسے اشخاص کی نشاندہی کریں جنہوں نے ان کے دوراقتدار کو طول دینے میں اور مالی اقتصادی پالیسیاں وضع کیں اور ضیاء الحق کی بھرپور تائید و حمایت کی تو سب سے پہلے مسٹر غلام اسحاق خاں کا نام لیا اور دوسرا نام جنرل جیلانی کا تھا جنہوں نے 1986ء کے وسط میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے چلایا۔ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف کو اس حقیقت کا ادراک ہو گا کہ ان کی کامیابی کی صورت میں ان کی پوری ٹیم شریک تصور ہو گی اور ناکامی کی شکل میں اس کے نتائج وہ تنہا بھگتیں گے کیونکہ یہی تاریخ کا سبق اور زمانے کا دستور ہے کرپشن کے خاتمے، قانون کی بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ قصہ زمین، برسرزمین والا طریقہ اپنایا جائے۔ فیصل آباد جس تیزی سے کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور پنجاب میں لاہور کے بعد صرف فیصل آباد ہی ہے جو بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے ساہیانوالہ کے قریب آٹھ سو ایکڑ اراضی سابق حکومت نے کالج اور یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے مختص کی تھی جو ارکان اسمبلی کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے تعمیر نہ ہو سکی اور یونیورسٹی کے نیوکیمپس کو ایوب زرعی ریسرچ کے عقب میں منتقل کر دیا گیا۔ پنجاب کے سابق صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں ایک سے زیادہ بار اپنے بیانات میں یقین دلا چکے ہیں کہ مذکورہ آٹھ سو ایکڑ اراضی پر اب انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر کیا جائے گا کیونکہ موجودہ ایئرپورٹ پاکستان فضائیہ کی ملکیت ہے اور فیصل آباد کی ضرورت پوری نہیں کرتا۔ وزیراعلیٰ نے اپنے دورہ فیصل آباد کے دوران ایک اجلاس میں نئے ایـئرپورٹ کی تعمیر پر ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کی رائے طلب کی تو مسلم لیگ(ن) کے بعض ارکان اسمبلی نے ایئرپورٹ تعمیر کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے فنڈز کا ضیاع قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ایئرپورٹ کی تعمیر پر جو فنڈز مختص کئے جائیں گے ان ارکان اسمبلی کے علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے وقف کر دیا جائے جبکہ چوہدری افضل ساہی اور آزاد علی تبسم نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ایئرپورٹ کی تعمیر کو جدید اور ماڈل فیصل آباد کے لئے ناگزیر قرار دیا اور انہوں نے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کے لئے بہت سے دلیلیں بھی دیں لیکن رانا افضل بلاجواز اس منصوبہ کی محالفت پر کمربستہ رہے اور ان کا مطالبہ تھا کہ فنڈز ارکان اسمبلی میں تقسیم کر دیئے جائیں جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف فیصل آباد کے نئے ایئرپورٹ کی تعمیر کے منصوبہ کا اعلان کرنے والے تھے اور نئے مالی سال کے آغاز پر وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اس کا سنگ بنیاد رکھنے کے پروگرام سے اتفاق کر چکے تھے اب رانا افضل رکن قومی اسمبلی اس اہم اور قومی منصوبہ کو اپنا انا کا سوال بناتے ہوئے متنازعہ قرار دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور میاں محمد شہبازشریف نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ فیصل آباد کے تمام صنعتی، تجارتی، سماجی اور تعلیمی حلقے فیصل آباد ایئرپورٹ کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لہٰذا کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں یہ قصہ زمین ہے اور برسرزمین میاں محمد شہبازشریف کو خود ہی حل کرنا ہو گا کیونکہ فنڈز تو وفاقی حکومت اور اس کے نقشہ ڈیزائن کی پلاننگ بھی وفاقی حکومت نے کرنی ہے اور تمام اس درخت کا پھل فیصل آباد کے عوام نے کھانا ہے اس لئے میاں محمد شہبازشریف اپنی ذات اور اپنے فیصلہ کو حتمی فیصلہ قرار دیتے ہوئے فیصل آباد کے نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کی وفاقی حکومت کو سفارش کریں۔ رہے ترقیاتی منصوبے تو وہ بنتے ہی رہیں گے یہ بھی ترقیاتی منصوبہ ہے جو فیصل آباد کی شان ہو گا اور پہچان بھی جیسے کہ جاپان کے تمام ایئرپورٹس انٹرنیشنل معیار کے ہیں اور وہ جاپان کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔