پولیس افسران کے تبادلوں کی آندھی
فیصل آباد کے سی پی او ڈاکٹر سہیل تاجک کے حکم پر ایک سال سے زائد ایک ہی تھانہ میں تعینات اور دو سے زیادہ مرتبہ ایک ہی تھانہ میں تعینات رہنے والے پولیس ملازمین اور افسران کے فوری طور پر تبادلے کر دیئے گئے ہیں اور پولیس ترجمان کے مطابق ان کی تعداد افسران اور اہل کاروں سمیت 868ہے جو کہ فیصل آباد کی پانچوں پولیس ڈویژنوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن پولیس ڈویژنوں میں تبادلوں کی یہ آندھی چلی ہے ان میں مدینہ ڈویژن، اقبال ڈویژن، صدر ڈویژن، لائلپور ڈویژن اور جڑانوالہ ڈویژن شامل ہیں اور تبدیل ہونے والوں میں سب انسپکٹرز رینک کے افسران ہی شامل ہیں۔ انسپکٹرز اور ایس ایچ او انسپکٹر کے عہدہ پر فائز کسی پولیس افسر کا تبادلہ نہیں کیا گیا حالانکہ پولیس میں حکمرانی کا تاج تو انسپکٹرز ایس ایچ اوز ہی اپنے سروں پر سجائے رکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اخبارات میں ایک بڑی اہم اور حیران کن خبر بھی نمایاں سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد امید تھی کہ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا اس کا نوٹس لیں گے مگر آئی جی پنجاب نے اور نہ ہی آئی جی آفس نے اس کا کوئی نوٹس لیا جس میں بتایا گیا تھا کہ تھانوں کے ایس ایچ اوز چاہے وہ انسپکٹرز ہیں یا سب انسپکٹرزانہوں نے اپنے پرائیویٹ گن مین رکھے ہوئے ہیں جو پولیس چھاپہ مارا اور دیگر معاملات میں جیسا کہ ’’مک مکا‘‘ کی سودابازی
ہو اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور بعض پرائیویٹ گن مین مختلف سنگین مقدمات میں بھی ملوث ہیں لیکن گن مین کا شیلٹر لئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایس ایچ او کو کس قانون اور ضابطہ نے اجازت دی ہے کہ وہ پرائیویٹ گن مین کی خدمات حاصل کرے اور اسے قانون کی وردی بھی فراہم کرے۔ اسے اندھیرنگری چوپٹ راج۔ کہتے ہیں اور اٹل حقیقت بھی یہی ہے کہ قانون سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ قانون اگر بدنام ہے تو ان قانون شکن عناصر کی وجہ سے جو اس پر عمل درآمد کرانے کے ذمہ دار اور ان کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہے لیکن اپنی ذمہ داری سے کوتاہی کے مرتکب ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنے اختیارات کی مستی میں غرق ہو کر لاقانونیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پولیس کو قانون کا سب سے بڑا محافظ قرار دیا جاتا ہے مگر پولیس عموماً دباؤ دھونس، دھاندلی اور لالچ کے باعث قانون کو اپنی لونڈی بنا دیتے ہیں جیسا کہ پرائیویٹ گن مین رکھنا بھی قانون کو لونڈی کا درجہ دینے کے مترادف ہے اور مشاہدہ سے یہ بات بھی آئی ہے کہ پولیس والے اپنے مفادات کے لئے بعض اوقات قانون کو بڑے لوگوں کی لونڈی بنا دیتے ہیں اور خود غلام کا کردار ادا کرتے ہیں۔ غریب آدمی اور عام بے وسیلہ آدمی پر جو مظالم ہوتے ہیں یا دنیا میں جو مظالم کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں ان پر اگر نظر ڈالی جائے تو پولیس سے بڑھ کر کوئی ظالم اور جابر طبقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ خود تو بے بس، مجبور و مقہور کو ظلم و تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور بااثر اور بڑے لوگوں بلکہ حکمران طبقہ کے ارشارہ ابرو پر کمزور طبقے پر ہونے والے مظالم کو اثرانداز کر دیتی ہے بلکہ حکمران طبقہ کا حق قرار دے دیتی ہے اور ان کے آلہ کار کی تصویر بن جاتی ہے۔ پولیس کے انسانیت سوز مظالم کی اگر داستانیں بیان کرنے لگیں اور انہیں ضبط تحریر میں لائیں تو ہمیں یقین ہے کہ ابلیس بھی انہیں پڑھ کر شرمندگی محسوس کرے گا۔ لوگ اگر کہتے ہیں کہ پولیس کی نااہلی عاقبت اندیشی اور ہوس زر میں اندھا ہو کر گھٹیا مفادات کے باعث معاشرہ میں انصاف کی بجائے ظلم کی حکمرانی ہے تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ پولیس کو ایسا کردار ادا کرنے کا حوصلہ کیسے نصیب ہوتا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو سیاسی بھی ہیں اور محکمانہ بھی ہیں۔ ماضی میں پولیس ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری محکموں میں ایک اصول طے تھا کہ جن سرکاری اداروں کا براہ راست تعلق اور رابطہ عوام سے پڑتا ہو اس محکمہ کے کسی افسر کو زیادہ سے زیادہ دو سال تک ایک مقام پر رکھنے دیا جاتا تھا اور برطانوی عہد حکومت میں محکمہ پولیس میں کسی افسر کو ایک تھانہ میں ایک سال سے زیادہ نہیں رہنے دیا جاتاتھا اور جب تبادلہ ہوتا تھا تو پولیس ڈویژن کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک سے دوسرے ضلع میں تبادلہ کر دیا جاتاتھا اس حکمت عملی کے تحت پولیس والے اپنی سیاسی لابی تیار کرنے اور سیاسی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے تھے اور ان کی تمام توجہ اپنے فرائض اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی پر مرکوز ہوتی تھی۔ لیکن اب کیا ہوتا ہے کہ برسوں تبادلہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک تھانہ سے دوسرے تھانہ یا ایک چوکی سے دوسری چوکی میں ہو جاتا ہے اور ہر بااثر پولیس افسر نے اپنی پسند کے اہلکاروں کا چناؤ کیا ہوا ہے اور جب اس کا تبادلہ ہوتا ہے تو اس کے پسندیدہ اہلکار بھی اس کے ہمراہ جاتے ہیں اور یہ رسم ایک طویل عرصہ سے چلی آ رہی ہے اب سی پی او فیصل آباد نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک سال سے زائد ایک ہی تھانہ یا چوکی میں تعینات تمام پولیس اہلکاروں اور افسروں کے تبادلے کر دیئے گئے ہیں جن کی تعداد 868پولیس ترجمان کے مطابق بیان کی جا رہی ہے لیکن اس بڑی تعداد میں تبادلوں کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں ہے کیونکہ ایک تھانہ سے دوسرے تھانہ میں ہوا اصل بات یہ ہے کہ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبادلہ کی حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ پولیس والوں نے اپنے مفادات کے لئے جو اپنا سیاسی نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے اس نیٹ ورک کو توڑا جائے اس کے باوجود جو اقدام اٹھایا گیا ہے اس کے نتائج بہتر ہی برآمد ہوں گے اور ایک کام اور بھی کرنے والا ہے کہ پولیس والوں نے اپنے ٹاؤٹ کی جو فورس بنا رکھی ہے اس فورس پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔