• news

From The Horse's Mouth!

ڈاکٹر عشرت اُلعباد نے اگر اپنی "Mother Party" ایم کیو ایم کی خواہش پر فوری طور پر گورنرشپ سے استعفیٰ نہ دِیا تو 27 مئی 2015ءکوگورنر سندھ کا منصب سنبھالے ، انہیں 12 سال اور 5 ماہ ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے کوٹے میں گورنر مقرر کیا تھا۔ صدر زرداری نے بھی ایم کیو ایم کا یہ کوٹہ بحال رکھا اور اُن کے بعد وزیرِاعظم نواز شریف نے بھی۔ اصولی طور پر ایم کیو ایم کے قائدین کو یہ مطالبہ وزیراعظم نواز شریف سے کرنا چاہئے کہ ”بھائی جان! آپ ہمارا ” بندہ“ ہمیں واپس کر دیں“ 

”عِشرت اُلعبادِیات؟“
عربی زبان میں ”عباد“ بندوں کو کہتے ہیں۔ خوبصورت گورنر سندھ کا نام بھی اُن کی طرح خوبصورت ہے۔ یعنی بندوں کی عِشرت (عیش و نشاط)۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی گورنرشپ کے دَوران صِرف ایک بار 17 جون 2011ءکو استعفیٰ دِیا تھا جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں بہت ٹھن گئی تھی، گورنر ہاﺅس کا عشرت کدہ چھوڑنے کے لئے استعفیٰ دِیا تھا جِس پر جناب الطاف حسین نے سات سمندر پار سے ویڈیو لِنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ڈاکٹر عشرت اُلعباد نے اپنے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دِیا ہے لیکن مَیں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ ”قومی اور مُلکی مفاد میں“ گورنر کی حیثیت سے کام کرتے رہیں“۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ضمیر کی آواز کو "Silencer" لگا لیا اور اپنے لیڈر کی ہدایت پر گورنری کرتے رہے، ڈاکٹر فاروق ستار نے قوم کو بتانے میں دیر کردی کہ ”ایم کیو ایم اقتدار کو ”جوتے کی نُوک“ پر رکھتی ہے“ حالانکہ اردو لغات میں ” جوتی کی نوک پر “۔ لِکھا ہے ۔ ”جوتے کی نُوک پر“ نہیں فاروق ستار صاحب چونکہ اہل زبان ہیں اور مَیں اردو سپیکنگ پنجابی، اِس لئے مَیں اُن کی اردو کی اصلاح کی جُرا¿ت نہیں کر سکتا۔ جب کسی سماجی گروپ میں پھوٹ پڑجائے تو اُسے ”جُوتِیوں میں دال بٹنا“ کہا جاتاہے۔ اس لحاظ سے جب کسی سیاسی جماعت میں پُھوٹ پڑ جائے تو اُسے ”جُوتِیوں میں گوشت بٹنا“ کہا جانا چاہئے۔
18 مارچ کو قتل کے مجرم اور ایم کیو ایم کے کارکن صَولت مرزا نے مچھ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ”قوم سے خطاب کرتے ہُوئے“ کہا تھا کہ ”ڈاکٹر عشرت اُلعباد کی سرپرستی میں گورنر ہاﺅس سندھ، جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ بن چکا ہے“۔ اس کے باوجود جناب الطاف حسین نے ڈاکٹر عشرت اُلعباد کو گورنر شپ سے استعفیٰ دینے کی ہدایت نہیں کی اب ساری کی ساری ایم کیو ایم کی طرف سے ڈاکٹر صاحب سے ”اعلانِ لا تعلقی“ کرتے ہُوئے کہا جا رہا ہے کہ وہ استعفیٰ دیں اور ایم کیو ایم میں واپس آ کر ایک کارکن کی حیثیت سے کام کریں“۔ فیصلہ تو ڈاکٹر عشرت العباد کو کرنا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی آواز پر توجہ دیں یا ضمِیر کی آواز پر؟ تاریخ میں کئی ایسے بادشاہوں/ راجاﺅں کا ذکر ہے جنہوں نے اقتدار کا رنگ محل چھوڑ کر سنّیاس لے لِیا اور زندہ جاوید ہوگئے لیکن ”عِشرت اُلعبادِیات“ میں جو نشہ ہے وہ سنّیاس میں کہاں؟
چیئرمین بلاول مُبارکباد دیتے تو؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن جناب آصف زرداری نے برطانوی ہاﺅس آف کامنز کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے اکثریت حاصل کرنے پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مبارکباد کا پیغام بھجوایا ہے۔ یہ زرداری صاحب کا جناب ڈیوڈ کیمرون سے خلوص کا اظہار ہے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی مہینوں سے ” انکل الطاف کا جِینا حرام“ کرنے کے لئے لندن میں موجود تھے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آکسفورڈ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے "Mature" ہونے والے چیئرمین بلاول خود گلدستہ لے کر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی خدمت میں حاضر ہوتے اور انہیں یہ بھی بتا تے کہ ” انکل جی! میرے اور بابا سائیں میں اختلافات کی ساری خبریں جھوٹی ہیں“۔
"From The Horse`s Mouth!"
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے 21 دسمبر2014ءکو الیکٹرانک میڈیا پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں نّوے (90) فی صد سے زیادہ مدرسے دہشت گردی سے پاک ہیں“۔ مَیں نے اپنے کالم میں چودھری صاحب سے پوچھا تھا کہ نّوے (90) فی صد سے زیادہ چودھری صاحب کی مراد اکنانوے (91) فی صد ہے یا ننانوے (99) فی صد؟ لیکن چودھری صاحب نے شاید اپنی ” گُوناگُوں مصروفیات“ کی وجہ سے میرے اِس سوال کا ابھی تک جواب نہیں دِیا۔
مَیں نے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی جناب عرفان الحق صدیقی سے مدرسوں سے متعلق سوال نہیں پوچھا تھا لیکن ”اوجی مَینوں پُچھّو!“ کے مصداق 12 مئی کو اُن کا یہ بیان پرنٹ میڈیا کی زینت بنا کہ ”دینی مدارس پوری مِلّت کا اثاثہ ہیں اور عُلماءحضرات دہشت گردی کے خاتمے اور قومی یک جہتی کے لئے قابلِ قدر کردار ادا کر رہے ہیں“۔ صدیقی صاحب کے اِس بیان سے بات صاف ہو گئی کہ ” صد فی صد مدرسے دہشت گردی سے پاک ہیں بلکہ وہ سب کے سب دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قابلِ قدر کردار ادا کر رہے ہیں“۔ کیا آپریشن ضرب اُلعضب میں پاک فوج کے شانہ بشانہ؟ جنابِ عرفان صدیقی نے نہیں بتایا۔
15فروری 2014ءکو ” طالبان کا باپ“ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کی صدارت میں 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 200 ”جیّد عُلمائ“ کی کانفرنس میں طالبان کو ”پاکستان کے بیٹے“ قرار دیا گیا تھا۔ کیا آپریشن ضرب اُلعضب میں مولانا سمیع الحق اور اُن کی کانفرنس میں شریک 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 200 ”جیّد عُلمائ“ بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں؟ کیا عرفان صدیقی صاحب اپنے ” عِرفان“ کی روشنی میں پُوری مِلّت“ کو بتائیں گے؟ وہ اِس لئے ضروری ہے کہ حکومت اور طالبان میں مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مختلف نیوز چینلوں پر جناب عرفان صدیقی کو بار بار مولانا سمیع الحق کے سامنے بچھتا ہُوا دکھایا جا رہا تھا اور وہ میڈیا سے کہہ رہے تھے کہ ہمارا (حکومت) اور مولانا سمیع الحق کا مقصد ایک ہے“۔
مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، قاضی حسین احمد، (مرحوم) اور بقید حیات سیّد منّورحسن اور مدرسوں کے کئی منتظمین نے یہ فتویٰ ابھی واپس نہیں لیِا کہ ”ہم دہشت گردوں سے جنگ کرتے ہُوئے جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ تسلیم نہیں کرتے“۔ کیا ان سب ”مفتیوں“ نے اپنا فتویٰ واپس لے لیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب یہ بھی بتائیں کہ کیا ببانگِ دُہل عالمی دہشت گرد تنظیم ”داعش“ کے پاکستان میں ”معاونِ خصوصی“ ہونے کے دعویدار، خود ساختہ امیر ُالمومنین ”لال مسجد فیم“ مولوی عبدالعزیز کی سرپرستی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد و نواح میں چل رہے 18 مدرسے بھی پوری مِلّت کا اثاثہ ہیں؟ کیا یہ مدرسے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کسی قسم کا کوئی ”کردار“ ادا کر رہے ہیں؟ یہ اِس لئے ضروری ہے کہ ”جنابِ وزیراعظم کی کابینہ کے ہر رُکن مُشیر اور معاونِ خصوصی کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو "From the Horse`s Mouth" ( معتبر ذرائع کہا جاتا ہے)۔

ای پیپر-دی نیشن