کرگل میں بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا، فوجی فتح کو سیاسی شکست میں بدل دیا گیا: مشرف
کراچی (نوائے وقت رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کرگل معرکہ بھارت کو ہمیشہ یاد رہے گا اس میں سیکنڈ لائن فورس بھی تھی جس نے بھارت کو گلے سے پکڑ لیا اور سیکنڈ لائن فورس کو فوج کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا انہوں نے یہ بات کراچی میں آل پاکستان مسلم لیگ یوتھ ونگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مشرف کا کہنا تھا کہ انہوں نے سانحہ کراچی پر پرنس کریم آغا خان کو فون کر کے تعزیت کی۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایم ایل بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی۔ کرگل میں چار ایسے مقامات سے داخل ہوئے جن کا بھارت کو پتا ہی نہیں تھا۔ معرکہ ایک عظیم فوجی فتح تھی جسے سیاسی شکست میں تبدیل کردیا گیا۔ بھارت کو ہمیشہ یاد رہے گا‘ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ملک کو کبھی قابل اور مخلص سیاسی قیادت نہیں ملی‘ معیشت کا برا حال ہے بجلی اور گیس تو دور آج پانی بھی میسر نہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان کی صورتحال آج ویسی ہی ہے جیسا میں نے بحیثیت صدر اپنے آخری خطاب میں کہا تھا لیکن میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات اس قدر خراب ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کارگل میں ہم نے پانچ اہم سٹریٹجک جگہوں پر بھارتی علاقوں میں کافی اندر تک قبضہ کرلیا تھا جن میں سے صرف ایک علاقے میں وہ 50 فیصد علاقہ واپس لے پائے تھے باقی چار کی انہیں خبر بھی نہیں تھی۔ سابق صدر نے کہا کہ اگر حکومت ساتھ دیتی تو کرگل کی جنگ دنیا کی تاریخ میں ایک بڑی فوجی فتح تھی جسے سیاسی میدان میں شکست میں تبدیل کردیا گیا۔آئی این پی کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ ہمیں تبدیلی کی جدوجہد کرنا ہوگی، ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے‘ نوجوان طبقے کو آگے آنا ہوگا‘ صولت مرزا اور عزیربلوچ تو محض پیادے ہیں اصل میں ان کے پیچھے تو سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جب کہ کراچی، بلوچستان اور خیبرپی کے میں جو ہورہا ہے اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا بھی ہاتھ ہے‘ مجھ پر چلنے والے کیسز انتقامی کارروائی ہیں‘ عوام کو جمہوریت اور آمریت سے کوئی سروکار نہیں اور وہ ملک کی ترقی چاہتے ہیں‘ اپنی اننگز کھیل لی اب نوجوانوں کی باری ہے‘ عام انتخابات کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ کب ہوں گے‘ افغانستان میں بھارتی سفارتخانے دہشت گردوں کے تربیتی مراکز بنے ہوئے ہیں‘ ملک کی بقاء اور حفاظت کیلئے ان دہشت گردی کے مراکز کو ختم کرنا ہوگا‘ اس حوالے سے سفارتی سطح پر بھارت اور افغان حکومتوں سے سختی سے بات کرنا ہوگی۔