• news

نواز شریف،آصف علی زرداری اور چوہدری نثار علی خان

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک ہی ہفتے میںوزیر اعظم محمد نواز شریف سے دوسری بار ملاقات کی تو میرا ماتھا ٹھنکا آخر کیا خاص بات ہے کہ آصف علی زرداری سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس میں وزیر اعظم کے پہلو میں بیٹھنے کے باوجود انہیں دوبارہ اسلام آباد آکر میاں نواز شریف سے ملاقات کرنا پڑی وزیر اعظم محمد نواز شریف اور سابق صدر آصٖف علی زرداری کے درمیان اس حد تک ’’محبت ‘‘بڑھ گئی ہے کہ وہ آصف علی زرداری کو اسماعیلی فرقے کے سربراہ سے سانحہ صفورہ پر تعزیت کے لئے اپنے ساتھ کراچی لے گئے آصف علی زرداری کا کراچی میں قیام خبر نہیں ہوتی لیکن جب وہ اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں تو اخبارات کی شہ سرخیاں بن جاتے ہیں میدان سیاست کے شہ سوار تو ہیں ہی لیکن اپنے مخالف کو چاروں شانوں چت کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں 2013ء کے انتخابات میں شکست کے باوجود جہاں انہوں نے ملکی سیاست میں اپنی اہمیت کو کم نہیں ہونے دیا وہاں انہوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اپنا ایسا ’’گرویدہ‘‘ بنایا کہ وہ اقتدار میں آکر پیپلز پارٹی کی قیادت کا احتساب کرنے کا نعرہ ہی بھول گئے اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور نہ ہی مسلم لیگی رہنما نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے دونوں کے درمیان بڑھتی’’ قربت ‘‘نے وزیر اعظم محمد نواز شریف اورچوہدری نثار علی خان کے درمیان’’ فاصلے ‘‘ پیدا کر دئیے ہیں ابھی تک یہ بات منظر عام پر نہیں آئی کہ چوہدری نثار علی خان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف 5میگا سکینڈل کی ہونے والی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ’’غیر مرئی‘‘ ہاتھ اس تحقیقات کی راہ میں حائل ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی کے افسران کے اجلاس میں اس بات کا برملا ذکر کیا ہے کہ ان کے علم میں لائے بغیر میگا سکینڈل کی تحقیقات ایک دیانت داررافسرسے واپس لے لی گئی اگرچہ انہوں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس کے حکم پر کس کے خلاف تحقیقات کا عمل متاثر ہوا ؟ لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ تحقیقات کس کے حکم پر تبدیل کی گئی ہے پارلیمنٹ کے درو دیوار اس بات کے گواہ ہیں پیپلز پارٹی کی قیادت وزیر اعظم محمد نواز شریف کی بجائے ان کے ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ کی طرف اپنی’’ توپوں‘‘ کا رخ کئے رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے وہ یہ سمجھتی ہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنی وزارت کی پروا کئے بغیر پیپلز پارٹی کی قیادت کا احتساب کرنے سے باز نہیں آئیں گے پاکستان مسلم لیگ(ن) میں پاکستان پیپلز پارٹی سے ’’محبتیں ‘‘ بڑھانے کے مخالف صرف تنہا چوہدری نثار علی خان ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے برادر اصغر میاں شہباز شریف پیش پیش ہیں مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں پیپلز پارٹی کے مخالفین میں راجہ محمد ظفرالحق، پروفیسر احسن اقبال ،خواجہ سعد رفیق اورمشاہداللہ خان کے نام قابل ذکر ہیں لیکن ان میں میاں نواز شریف کے سامنے لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کا یارا صرف چوہدری نثار علی خان کو ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب کے میدانوں میں مسلم لیگ (ن)نے ہی پیپلز پارٹی کا صفایا کیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے مسلم لیگ (ن) کی بجائے تحریک انصاف میں ’’جائے پناہ‘‘ تلاش کی ہے پنجاب میں تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی جگہ لے لی ہے تحریک انصاف کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی دل سے شکست تسلیم نہیں کی یہی وجہ ہے ایک طرف وہ مسلم لیگ(ن) سے اگست2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری کے ایجی ٹیشن کے خلاف میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے کی قیمت وصول کر رہی ہے دوسری طرف جوڈیشل کمیشن میں انتخابات میں دھاندلیاں ثابت کرنے کے لئے تحریک انصاف کے کیس کو مضبوط کرتے دکھائی دے رہی ہے آصف علی زرداری سے ہزار اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن ان کی ’’سیاست گردی‘‘ کا ہر کوئی معترف ہے انہوں نے سینیٹ کے انتخابات سے قبل وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ’’مفاہمت‘‘ کے نام پر چیئرمین سینیٹ کے منصب کی فرمائش کر دی میاں نواز شریف کے نہ ماننے پر 27نشستوں سے ٹیڑھی انگلی سے گھی نکال لیا پھر میاں نواز شریف کو آصف علی زرداری کے نامزد کردہ چیئرمین کو ’’مفاہمت‘‘ کے نام پر قبول کرنا پڑا حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس پیپلز پارٹی سے صرف ایک نشست کم تھی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کی شکست کی ایک وجہ چوہدری نثار علی خان کو’’ سائیڈ لائن ‘‘کرنا تھا سیاسی جوڑتوڑ میں چوہدری نثار علی خان کا کوئی رول ہوتا تو آج مسلم لیگ(ن) کا چیئرمین ہوتاکیونکہ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کو رام کرنے کا گر چوہدری نثار علی خان کے پاس تھا مجھے یاد ہے جب اگست2007ء میں زرداری ہائوس میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا ’’مواخذہ ‘‘ کرنے کی تحریک پیش کرنے کے معاہدہ پر دستخط ہو رہے تھے تو آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے ون آن ون بات کرنے کا تقاضا کر دیالیکن میاں شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو ان دونوں کے قریب بیٹھنے کی تاکید کی جب میاں نواز شریف نے 24گھنٹوں میں ججوں کو بحال کرنے پر آصف علی زرداری کو ’’بلینک چیک‘‘ دینے کی پیشکش کی تو فوراً چوہدری نثار علی خان بول پڑے اور کہاکہ’’میاں صاحب !آپ ججوں کی بحالی پر آصف علی زرداری کو’’ بلینک چیک ‘‘ نہیں دے سکتے ‘‘ چونکہ وہ اس پیشکش پر آصف علی زرداری کی آنکھوں میں چمک دیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے اس پیشکش کی مخالفت کی جس پر آصف علی زرداری نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ’’میاں صاحب ! ہمارے درمیان نثار کوئی بات طے نہیں ہونے دے رہے جس پر چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’’میر ے مخاطب میرے لیڈر ہیں وہ میری بات سے اتفاق یا عدم اتفاق کر نے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کو اس بات پر سیخ پا ہونے کا حق نہیں اور چوہدری نثار علی خان کے اعتراض کی وجہ سے ججوں کی بحالی سے ’’بلینک چیک‘‘ کو مشروط نہیں کیا جا سکا اگرمیاں نواز شریف ججوں کی بحالی سے’’ بلینک چیک ‘‘ کو مشروط کر دیتے تو آصف علی زرداری ججوں کی بحالی کے بعد ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کی آئینی ترمیم منظور کرا کر جسٹس افتخار محمد چوہدری سے جان چھڑا کر جسٹس عبدالحمید ڈو گر کو دوبارہ چیف جسٹس بنوا لیتے لیکن چوہدری نثار علی خان کی ذہانت سے نواز شریف ’’ٹریپ ‘‘ہونے سے بچ گئے اگرچہ ابھی تک آصف علی زرداری کی وزیر اعظم محمد نواز شریف سے مسلسل ملاقاتوں کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں لیکن ان ملاقاتوں سے یہ باور کیا جاتا ہے صدر آصف علی زرداری اپنے خلاف احتساب کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر ناراض دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف میگا سکینڈلزکی تحقیقات کے عمل کو رکوانا چاہتے ہیں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں دن بدن کراچی کے معاملات پر سندھ حکومت کی گرفت ختم ہوتی جارہی ہے اور کراچی عملاً فوج کے ہاتھ میں چلا گیا ہے کراچی میں کسی وقت بھی گورنر راج کا نفاذ ہو سکتاہے ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عشرت العباد سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے اگر کسی وقت سندھ میں کوئی بڑی انتظامی تبدیلی ہوتی ہے تو آصف علی زرداری وفاقی حکومت سے ایک ہی ’’صفحہ‘‘ پر ہونا چاہتے ہیں ۔ آصف علی زرداری یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ جمہوری نظام کے چلنے اور موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کے حامی ہیں موجودہ حکومت کے لئے کوئی مشکلات پیدا نہیں کریں گے وزیر اعظم محمد نواز شریف پیپلز پارٹی کے’’ فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا کردار ادا کرنے پر اسے بہت سی رعایات دینا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) میں ’’عقاب صفت‘‘ رہنما جن کی قیادت چوہدری نثار علی خان کر رہے ہیں پیپلز پارٹی سے قربتیں ختم کرنے کے لئے اپنی پارٹی کی قیادت پر دبائو ڈال رہے ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان میں پائی جانے والی’’ دوریوں ‘‘میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا بڑھتا ہوا’’ رومانس ‘‘ہے چوہدری نثار علی خان ، شہباز شریف اور دیگر ’’عقاب صفت‘‘ بار بار میاں نواز شریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ہی ووٹ ملتے ہیں اگر دونوں جماعتوں کی قیادت باہم شیرو شکر ہو گئی تو مسلم لیگ (ن) کا حشر پیپلز پارٹی ہی جیسا ہوگا کیونکہ عمران خان کا ایک ہی نعرہ ہے وہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی ’’پارٹنر شپ ‘‘توڑ کر چھوڑیں گے قبل اس کے کہ عمران خان اپنانعرہ سچ ثابت کر دکھائیں میاں نواز شریف کو آصف علی زرداری سے ’’محبت کی پینگیں‘‘ بڑھانے میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے پارٹی میں ان کے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کی بات کو اہمیت دینا چاہیے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس ‘‘ کا جلد’’ڈراپ سین‘‘ نہ ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی میدان میں نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن