شادباغ، صدمے سے نڈھال ماں جلنے والے 6 بچوں کو نام لے لیکر پکارتی رہی
لاہور (لیڈی رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی) شادباغ میں آتشزدگی سے زندہ جل مرنے والے چھ بچوںکے گھر پر تعزیت کیلئے آنے والوںکا تانتا تیسرے روز بھی بندھا رہا۔ بچوںکی بدنصیب والدہ مسز پومی قیصر شدت غم سے نڈھال دکھائی دی۔ وہ اچانک لقمہ اجل بن جانے والے بچوںکے نام لے لیکر انہیں پکارتی اور انکی میٹھی باتیں یاد کرکرکے زار و قطار روتے ہوئے کہتی رہی کہ میری گود اجڑ گئی، میرا گھر برباد ہوگیا، میرے سارے بچے ایک ساتھ مجھے روتا پیٹتا چھوڑ گئے کاش انکی جگہ میں مرجاتی، میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے جلتے مرتے دیکھا میں ساری زندگی یہ دلخراش منظر فراموش نہیں کر پاؤںگی، دونوں بیٹے نچلی منزل پر تھے، ہم ماں بیٹیوںکو دھویں کی بو آئی تو دیوانہ وار بھاگیں، میرا خیال تھا کہ سبھی بچے بچ جائیں گے میں مدد کیلئے پکارتی پھری مگر ریسکیو ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں۔ روتے تڑپتے ہوئے بدنصیب مامتا آنے والوں کو مزید بتاتی رہی کہ میری تو ساری زندگی ہی بچوںکے گرد گھومتی تھی، میں ان کی فرمائش پر انہیں من پسند کھانے بناکر دیتی، ہم انہیں پکنک پر لے جاتے، میرے بچوںکو آئس کریم اور کباب بہت پسند تھے، ہم دونوںمیاںبیوی ان کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے، انکے امتحانوں کی تیاری کرواتی اب کیا کروںگی، کیسے زندگی کے دن گزریںگے، میری تو ایک رات بھی ان کے بغیر تڑپتے ہوئے گزری ہے، بچوں کی باتیں اور ان کے چہرے میری آنکھوںکے سامنے گھوم رہے ہیں میں مرتے دم تک اس صدمے کو بھول نہیں سکتی۔ محلے دار خواتین پروین اور فوزیہ نے آہیں بھرتے ہوئے کہا کہ اگر ریسکیو ٹیمیں بروقت پہنچ جاتیں تو بالائی منزل پر موجود چار بچوں کو بچایا جاسکتا تھا، انکی غفلت سے آج ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ میں شادباغ میں بچوں کے جھلس کر جاں بحق ہونے کے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کیلئے درخواست دائر کردی گئی۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا گیا کہ آگ لگنے کے واقعہ میں چھ معصوم بچوں کی اموات ریسکیو 1122 اور فائر بریگیڈ کی نااہلی ہے۔ مناسب اور بروقت انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے چھ معصوم بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی۔ گرین لائن ٹرین اور میٹرو بس جیسے منصوبے پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں مگر فائر بریگیڈ کو بہتر نہیں بنایا جارہا۔