پنجاب اسمبلی: گندم خریداری مہم میں کاشتکاروں کے مبینہ استحصال کیخلاف اپوزیشن کا احتجاج، واک آئوٹ
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے گندم خریداری مہم میں کاشتکاروں کے مبینہ استحصال کیخلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا، اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے گندم خریداری کے ٹارگٹ میں 30فیصد کمی کرتے ہوئے باردانہ کی تقسیم اور خریداری کا عمل روک دیا ہے، اگر حکومت نے کسانوں کے ساتھ یہی سلوک کرنا ہے تو ہم سے زمینیں لے لی جائیں ہم کہیں اورکوچ کر جاتے ہیں۔ اپوزیشن ارکان سانحہ شاد باغ کیخلاف بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے اور ریسکیو اداروں کی غفلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا، اپوزیشن رکن کی نشاندہی پر حکومت کورم پورا نہ کر سکی اور اجلاس آج (منگل) صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز اپنے مقررہ وقت دو بجے کی بجائے 55منٹ کی تاخیر سے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے سانحہ شادباغ کے حوالے سے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ لاہور کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے جس میں 6 بچے زندہ جل کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ بچے اور اہل علاقہ ڈیڑھ گھنٹے تک چیخ و پکار کرتے رہے لیکن ریسکیو ادارے نہ پہنچے۔ ریسکیو 1122 پہنچی تو اس میں صرف ڈرائیور تھا جس نے نل کو کھولنا چاہا تو وہ جیم تھا۔ آدھا گھنٹہ بعد فائر بریگیڈ پہنچی لیکن پائپ جوڑ کر اسے پانی کھولنے کا کہا گیا تو معلوم ہوا کہ ٹینکر خالی ہے اور اس میں پانی ہی نہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ دس کروڑ عوام کس کے رحم و کرم پر ہیں۔ گڈ گورننس کہاں ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ قواعد معطل کر کے مذمتی قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اس پر سب کو دلی صدمہ ہوا ہے۔ صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایوان میں کہا کہ قائد حزب اختلاف کی طرف سے جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے حکومتی بنچوں پر بھی اس طرح کے جذبات ہیں۔ واقعہ کے بعد جب ان معاملات کی نشاندہی کی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری تحقیقات کے لئے کہہ دیا ہے اور اس کی رپورٹ سے ہائوس کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کی کوشش کریں گے اور کرنی بھی چاہیے۔ ایوان میں سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی بھی کرائی گئی۔ پارلیمانی سیکرٹری چودھری خالد محمود ججہ نے محکمہ آبپاشی سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے۔ ارکان کے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے صرف ایک رکن اسمبلی کے سوال کا ایوان میں جواب دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سردار شہاب الدین نے کہا کہ لیہ میں ریسٹ ہائوسز کے 500ایکڑ رقبے کو 2010ء سے لیز پر نہیں دیا جارہا اور محکمے کے افسران کھا رہے ہیں۔ اجلاس میںآزاد رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ نے سوال اٹھایا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں ،مراعات میں اضافے اور اسمبلی ملازمین کی تنخواہوں اور سکیلز اپ گریڈیشن کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی ۔ ملک ندیم کامران نے کہا کہ اس سلسلہ میں اجلاس ہوئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں لیا جا سکا۔ (ق) لیگ کے احمد شاہ کھگہ نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کا بر ا حال ہے ، کسان باردانے کے حصول کے لئے سنٹر جاتے ہیں لیکن خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ ، چوبیس ‘ چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں وہ اس طرف بھی توجہ دیں، مڈل مین 800 سے 900روپے فی من میں فصل خرید کر کسان کااستحصال کر رہا ہے۔ احمد خان بھچر نے کہا کہ حکومت نے گندم خریداری کا ٹارگٹ 70فیصد تک محدود کر کے خریداری کا عمل روکدیا ہے۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ مس مینجمنٹ کی وجہ سے یہ صورتحال بنی ہے۔