’’جنرل‘‘ زرداری کی صدارتی سیاست
اسلام آباد سے جو بیان صدر زرداری نے دیا ہے۔ جس میں براہ راست جرنیلوں اور ان کی چھڑی کا ذکر جارحانہ کیا گیا ہے یہ ’’صدر‘‘ زرداری کا مزاج نہیں ہے نہ ان کی کامیاب مفاہمتی سیاست کا اسلوب ہے۔ وہ کبھی اس سے ملتی جلتی بات گڑھی خدا بخش میں کرتے تھے۔ وہ بھی شہید بی بی کے برسی پر۔ بلاول بھی ساتھ ہوتا۔ اس وقت جنرل کیانی آرمی چیف تھے، چھڑی تو ان کے پاس ہوتی تھی۔ ان کے پاس چھتری بھی تھی جس نے ’’صدر‘‘ زرداری کو دھوپ سے اور بارش سے بچائے رکھا۔ جنرل راحیل شریف نے بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جمہوریت کا تحفہ دیا ہے۔ اب تک کچھ بھی ایسا نہیں ہوا جس کے ردعمل میں یہ بیان ’’صدر‘‘ زرداری نے دیا ہے۔ نجانے اس کا پس منظر کیا ہے اور پیش منظر کیا ہے؟ میں ہمیشہ اب بھی ان کو سابق صدر نہیں کہتا۔ ’’صدر‘‘ کہتا ہوں۔ مگر انہیں شاید خود جنرل زرداری بننے کا ارمان ابھی ہے۔ ایک المیہ ہماری سیاست و حکومت کا ہے کہ یہاں سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔ دونوں ناکام ہوئے بدنام بھی ہوئے۔ سیاستدانوں میں بھٹو صاحب اور کسی حد تک نواز شریف کا نام ذہن میں آتا ہے۔ جرنیلوں میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف نمایاں ہیں۔ اگر جرنیل سیاستدان نہ بنتے۔ حکومت کے لئے بھی جرنیل ہی رہتے۔ اور سیاستدان جرنیل کا خواب نہ دیکھتے تو بات بن پاتی۔ اختیار اور اس کا استعمال حکمران کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ کاش وہ بے اختیاری کی طاقت کو سمجھتے تو جو سرشاری انہیں ملتی اس کا کچھ متبادل نہیں ہے۔
’’مینوں لگ گئی بے اختیاری‘‘
جنرل کیانی بہت دوستانہ انکساری کے ساتھ ’’صدر‘‘ زرداری کے سامنے بیٹھتے اور وہ ان سے پوچھتے کہ آپ کے بھائیوں کا کاروبار کیسا جا رہا ہے؟ جنرل راحیل شریف جانتے ہیں کہ انکساری اور وقار ساتھ ساتھ ہوں تو اعتبار بنتا ہے۔ صدر زرداری نے جنرل کیانی کو ایکسٹنشن دی اور انہوں نے قبول کر لی۔ اس کے صلے میں اور کیا کچھ ہوا۔ حسین حقانی اور رحمان ملک جانتے ہیں۔ جانتے تو ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چودھری بھی ہیں۔ تین چیف بہت اہم ہیں۔ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے علاوہ چیف ایگزیکٹو؟ گیلانی نام کے چیف ایگزیکٹو تھے۔ چیف ایگزیکٹو اصل میں ’’صدر‘‘ زرداری تھے۔ جنرل شریف نے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کہلوانا پسند کیا۔ پارلیمانی جمہوریت کے ’’معرکے‘‘ دیکھئے۔ کیا ’’صدر‘‘ زرداری اور صدر ممنون کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی اور وزیراعظم نواز شریف کا موازنہ کوئی کر لے گا۔ بے شک پرویز اشرف کو بھی گیلانی کے ساتھ ملا لیں۔
ایبٹ آباد ڈرامہ میں اسامہ اور صدر اوبامہ کے مقابلے میں ’’صدر‘‘ زرداری اور جنرل کیانی ساتھ ساتھ تھے تب جادو کی چھڑی جنرل کیانی کے ہاتھ میں تھی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے سیاسی مفادات کے لئے جادو کی چھڑی کو بھی استعمال کیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے این آر او بھی جادو کی چھڑی سے جنرل مشرف نے یہ کارنامہ کیا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جرنیل چھڑی اوپر کریں گے تو لوگ کھڑے ہو جائیں گے نیچے کریں گے تو بیٹھ جائیں گے۔ لوگوں کی بجائے سیاستدان کہہ دیا جاتا تو بات کچھ بامعنی ہو جاتی۔ لوگ تو اپنی فوج کے ساتھ ہیں۔ شمالی وزیرستان میں اور کراچی میں فوج قربانی دے رہی ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری کے پانچ سال میں کراچی میں کوئی بہتری کی تو آپریشن ضرب عضب کے مقابلے میں آپریشن ضرب عضب کیوں؟ سندھ حکومت کس کے پاس ہے۔ جنرل مشرف کو پیپلز پارٹی کے پورے دس لوگوں نے سیاسی سہارا دیا۔ اور پھر ایم کیو ایم کے مولانا فضل الرحمن نے آمریت کو قائم کیا جنرل صدر مشرف نے صدر زرداری کے لئے صدارت چھوڑ دی۔
’’صدر زرداری نے پاک فوج میں خامیاں تلاش کر لی ہیں۔ وہ سیاسی اداروں یعنی جماعتوں سے کم نہیں ہیں؟ وہ ادارے کے طور پر اس میں کسی ایک خامی کی طرف اشارہ کریں۔ جرنیلوں کی مثال غلط ہے انہیں شہید بی بی کے قاتلوں کا علم تھا مگر انہوں نے بتایا نہیں؟ اچھا صرف یہ بتا دیں کہ پاک فوج میں کبھی کوئی ذوالفقار مرزا پیدا ہوا ہے؟ صدر زرداری اس لئے پریشان ہیں کہ وہ کسی کے اشارے پر گندی زبان استعمال کر رہے ہیں فہمیدہ مرزا بھی اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے ابھی اس کی زبان تو گندی نہیں ہے۔ سلطان ملک کچھ بھی بولے تو درست اور کبھی کبھی بلاول پر بھی شک و شبہ ہوتا ہے ابھی تو ایان علی بھی بولے گی کور کمانڈر کراچی جنرل نوید مختارنے تو جنرل بات کی ہے اسے خاص طور پر پریشانی بنانا درست نہیں ہے۔
پاک فوج تو طالبان اور ان کے نگہبان اور نگران گروپوں کے خلاف لڑ رہی ہے تو سیاستدان کیوں غصہ کر رہے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے اس بیان کے بعد صاف پتہ چلتا ہے کہ حکمران اور سیاستدان میں فرق ہے چودھری نثار علی خان نے کرکٹ کے حوالے سے کہا ہے ’’سکیورٹی بہترین ہو لیکن کم سے کم نظر آئے‘‘۔ ’’صدر‘‘ زرداری بھی اس بات کے ماہر ہیں کہ ’’جو کچھ کرنا ہے کر دو مگر پتہ نہ چلے‘‘۔ جادو کی چھڑی سے خوف نہیں ہے اور میں وزیر اعلیٰ سندھ کو تبدیل نہیں کروں گا۔ یہ تو یقین ہے کہ آپ قائم علی شاہ کو نہیں ہٹائیں گے۔ تو پھر ایسی خوف زدگی کیوں؟ دو دفعہ آپ کی بیوی یا بی بی کی حکومت ٹوٹی۔ آپ کچھ نہ کر سکے پھر آپ کی اپنی مدت پوری کی تو کیسے کی؟ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے پتہ صرف آپ کو ہے۔ آپ جرنیلوں اور شریف برادران کو نہ لڑائیں۔ اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے نواز شریف بھی اب مزاحمت نہیں چاہتے۔ اور ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست آپ کے ہاتھ میں ہے جنرل راحیل بھی پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے اور دوسرے عوام دشمن سیاسی فیصلوں کے خلاف لانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی طور پر سیاسی حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔ جتنی ملاقاتیں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی ہوئیں۔ تقریباً اتنی ہی ’’صدر‘‘ زرداری اور جنرل کیانی کی ہوئیں ہونگی۔ شہباز شریف اور چودھری نثار ’’صدر‘‘ زرداری کے مفاہمانہ معاملات کو خوب جانتے ہیں نواز شریف ’’صدر‘‘ زرداری پر اتنا اعتبار نہ کریں۔ شہباز شریف اور چودھری نثار نے مشورہ کر لیا جنرل راحیل شریف سے براہ راست ان کا رابطہ ہے ورنہ جنرل عبدالقادر بلوچ سے پوچھ لیا کریں۔