آرمی چیف کا آئی جی سندھ کو فون، سانحہ صفورا میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری پر شاباش
کراچی (نوائے وقت رپورٹ + وقائع نگار + کرائم رپورٹر) آرمی چیف راحیل شریف نے آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو فون کیا اور سانحہ صفورا میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری پر سندھ پولیس کی تعریف کی اور شاباش دی۔ ترجمان پولیس کے مطابق آرمی چیف نے سندھ پولیس کی کارکردگی کو سراہا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سبین محمود کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سعد عزیز ہے۔ جبکہ قتل کا ایک ملزم سرسید یونیورسٹی کا الیکٹرانک انجینئر ہے جبکہ ایک قاتل حافظ ناصر جامعہ کراچی کا ایم اے اسلامیات ہے ملزموں نے سانحہ صفورا کے بعد سبین محمود کے قتل کابھی اعتراف کرلیا ہے۔ گرفتار ملزموں نے امریکی ڈاکٹر ڈیبورا لوبو پر بھی حملہ کیا تھا۔ اسی گروپ نے پولیس اور بوہری برادری پر بھی حملے کئے۔ حافظ ناصر اور الیاس جان 2013ء سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔ حافظ ناصر لوگوں کا برین واش کرتا ہے۔ حافظ ناصر کے گروپ میں 15سے 20لوگ شامل ہیں۔ گروپ کے نام ابھی سامنے نہیں لائیں گے۔ گروپ گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس پارٹی کیلئے 5کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملزمان کے قبضے سے اسلحہ اور دستی بم ملے ہیں۔ سندھ پولیس نے 3دن میں ملزموں کو گرفتار کیا، اہم ثبوت ملے ہیں۔ اسی گروپ نے نارتھ ناظم آباد میں دستی بم حملے کئے۔ دہشتگردوں سے کلاشنکوف، 7نائن ایم ایم پسٹل اور 5دستی بم برآمد ہوئے، دہشتگردوں سے لیپ ٹاپ اور دھماکہ خیز مواد اور جہادی لٹریچر بھی برآمد ہوا۔ بلوچستان سے لے کر کراچی تک ’’را‘‘ کی مداخلت رہی ہے، اس لئے اس کا نام لیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی کے بعد پتہ چلے گا کہ کون سے گروپ ملوث ہیں۔ حافظ ناصر کو بم بنانے اور استعمال کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ بی بی سی کے مطابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان میں طاہر حسین منہاس عرف سائیں عرف نذیرعرف زاہد، سعد عزیز عرف ٹن ٹن، محمد اظہر عشرت عرف ماجد اور حافظ ناصر حسین عرف یاسر شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار کئے گئے ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں انجینئر اور کراچی یونیورسٹی کے طالب علم بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کا تعلق القاعدہ کی برصغیر شاخ سے ہے اور ان سے کی جانے والی تفتیش کی روشنی میں دیگر ملزمان کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔ گرفتار ملزمان کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ گرفتار ملزمان میں سانحہ صفورا کا مرکزی ملزم طاہر بھی شامل ہے۔ ملزم طاہر کا بھائی پولیس مقابلے میں مارا جاچکا ہے۔ گرفتار ملزمان کے بیانات اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے سانحے کی تفتیش میں مدد ملی ۔ذرائع کے مطابق ملزم طاہر نے سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا بھی اعتراف کیا ہے ۔ملزم ناظم آباد میں بینک ڈکیتی میں بھی ملوث ہے جبکہ حیدرآباد میں بھی ایک مقدمے میں گرفتار ہوا تھا ۔ دریں اثناء آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ صفورا سندھ پولیس کیلئے چیلنج تھا، ہم نے 3 دن میں دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کی کارروائی کو سب نے سراہا، یہ ہمارے لئے قابل فخر بات ہے۔ دہشت گرد گروہ 8 یا 9 سال سے سرگرم تھا۔ دہشت گردوں کا اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا۔ سبین محمود کا قتل ملزم سعد عزیز نے کیا۔ حملے کا ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس تھا۔ اس کو بھی گرفتار کیا۔ گرفتار ملزمان امریکی خاتون ڈیبور الوبو پر حملے میں بھی ملوث تھے۔ یہ گروپ بوہری کمیونٹی پر حملے میں بھی ملوث تھے۔ یہ گروپ نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد میں سکولوں پر ہینڈ گرینیڈ حملوں میں ملوث تھا۔ ملزمان کی جے آئی ٹی کی جائے گی، اس کے بعد سمت کا پتہ چلے گا۔ کراچی سانحہ میں حملے میں 15 ملزمان ملوث تھے۔ ملزموں کے ہینڈلرز کون تھے، جے آئی ٹی میں پتہ چل جائے گا۔ دس ملزمان موٹر سائیکلوں اور 5 ملزمان دو گاڑیوں میں تھے۔ ملزمان کے نام مل گئے ہیں جن میں 4 کو گرفتار کرلیا ہے۔ سندھ سے اغواء برائے تاوان کو ختم کردیا ہے۔ بھتہ لینے کے واقعات ماضی کا قصہ ہیں۔ سعد عزیز نے سبین محمود کی ریکی کیلئے کئی تقریبات میں شرکت کی۔ نجی ٹی وی کے مطابق سانحہ صفورا کے ماسٹر مائنڈ کا نام عبدالمعاویہ ولد یونس ہے۔ معاویہ کو بہاولپور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ماسٹر مائنڈ معاویہ کا تعلق بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے ہے۔ زمان ٹائون کراچی اور اطراف میں پولیس نے کارروائی کرکے 8 ملزم گرفتار کرلئے۔ گرفتار ملزموں میں سے 4 کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔