• news

پنجاب اسمبلی: کسی وزیر کے موجود نہ ہونے پر اپوزیشن کا احتجاج، واک آئوٹ ، دوسرے روز بھی نعرے بازی

لاہور (خصوصی رپورٹر/خبر نگار/خصوصی نامہ نگار) صوبائی وزراء کی عدم موجودگی کے باعث پنجاب اسمبلی میں سرکاری بزنس نہ ہو سکا جس پر سپیکر نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس آج (جمعرات) تک کے لئے ملتوی کر دیا۔ اپوزیشن نے کسی ایک بھی وزیر کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر احتجاج کیا اور ایوان کی کارروائی سے احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ اس موقع پر گذشتہ روز بھی حکومتی ارکان رو عمران رو اور اپوزیشن ارکان گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہے۔ وقفہ سوالات کے دوران صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے تسلیم کیا ہے کہ چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کو انکی فصلوں کا صحیح معاوضہ نہیں مل سکا، ہماری درخواست پر وفاق نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ کپاس کی فصل کے دوران ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کو متحرک کیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت صبح 10 بجے کی بجائے 30منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید کے ایوان میں نہ پہنچنے کے باعث شیڈول کے مطابق وقفہ سوالات کا آغاز نہ ہوا۔ سپیکر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید کی اہلیہ بیمار ہیں اس لئے انہیں آنے میں تاخیر ہو گئی۔ اجلاس دس منٹ کیلئے ملتوی کیا جاتا ہے تاہم صوبائی وزیر مقررہ وقت سے پہلے ایوان میں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر فرخ جاوید نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب میں 35لاکھ 50ہزار ایکڑ رقبہ کلر و تھور سے متاثر ہے، اس سلسلہ میں سمری ارسال کی گئی ہے کہ مذکورہ اراضی کو قابل کاشت بنانے کے لئے کسانوں کو سبسڈی دی جائے اور اس سلسلہ میں کسانوں کو جپسم فراہم کی جائے گی۔ سپیکر نے صدیق خان کے ضمنی سوال پر صوبائی وزیر زراعت کو تاکید کی صوبہ بھر میں قائم پرائیویٹ منڈیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں ریگولیٹ کر کے نیٹ میں لایا جائے۔ صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت کی کامیاب کارروائی کے باعث جعلی بیج اور ادویات کی فروخت 18فیصد سے کم ہو کر 3فیصد کی سطح پر آ گئی ہے۔ کاٹن کی 10ملین بیلز سے زائد کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ ایوان میں سوال اٹھایا گیا کہ ٹی سی پی نے کسانوں کی بجائے ملوں سے خریداری کی جس پر صوبائی وزیر نے بتایا کہ اس وقت تک کسان اپنی فصل بیچ چکے تھے ۔ سپیکر نے کہا کہ ٹی سی پی نے بڑی زیادتی کی اور پسند اور ناپسند کی بنیاد پر خریداری کی گئی۔ انہوں نے صوبائی وزیر کو تاکید کہ اس طرح کا میکنزم بنایا جائے جس میں ٹی سی پی کو ٹائم کا پابند بنایا جائے تاکہ کسان کو نقصان نہ ہو۔ صوبائی وزیر نے ایوان میں یہ بھی اعتراف کیا کہ گزشتہ سال چاول کا کاشتکار بھی اپنی فصل کی پوری قیمت حاصل نہیں کر سکا اور اسے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ پی ٹی آئی کے رکن صدیق خان نے کہا کہ 18ویں آئینی ترامیم کے بعد محکمہ زراعت صوبوں کے پاس آ گئی ہے اس کے لئے قانون سازی کرنی چاہیے۔ احمد خان بھچر کا غلط جواب آنے پر سپیکر گورچانی نے صوبائی وزیر کوانکوائری کر کے پیر کے روز کوئی وزیر موجود نہیں رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے وزراء کی ایوان میں عدم موجودگی پر احتجاج کیا اور کہا کہ افسوس 10 کروڑ عوام کا نمائندہ اجلاس ہو رہا ہے جس پر سپیکر نے بتایا کہ آج کابینہ کی میٹنگ ہے۔ ق لیگ کی پی آئی سی کے معاملات میں تحریک التوائے نمٹائے جانے پر عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ میں جواب سے مطمئن نہیں، پی آئی سی میں آپریشن کے لئے دو‘ دو سال کا ٹائم ملتا ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پی آئی سی پر ایک حد سے زیادہ بوجھ ہے لیکن اب وہاں نئی ایمر جنسی بن رہی ہے اور اس پرکام جاری ہے۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ میں حلفاً یہ بات کہہ رہا ہوں کہ پی آئی سی میں ایک بیڈ پر خواتین کے ساتھ مرد اکٹھے لٹائے ہوتے ہیں، فرش اور کرسیوں پر بٹھا کر علاج کیا جاتا ہے۔ یہ حکومت کی گڈ گورننس ہے۔ آپریشن کے لئے پانچ‘ پانچ سال کا وقت دیا جاتا ہے۔ اگر اس اسمبلی نے درد نہیں سننا تو پھر کون سنے گا۔ سپیکر نے کہا کہ یہاں میر ے حلقے راجن پور سے ایک غریب مریض آیا، پرائیویٹ ہسپتال میں اسکے آپریشن کے لئے پانچ لاکھ روپے مانگے گئے لیکن پی آئی سی میں اس ایمر جنسی کیس کو دیکھا گیا اور وہ دعائیں دیتا ہوا واپس گیا ہے۔ جو اچھا کام ہو رہا ہے اسکی تعریف بھی ہونی چاہیے۔ اسلم اقبال نے کہا کہ آپ وی آئی پی تھے اس لئے آپ کو پروٹوکول مل گیا۔ موجودہ حکومت صرف شعبدہ بازی سے کام چلاتی ہے۔ خدیجہ عمر نے کہا کہ اگر آج وزیر آباد کے کارڈیالوجی کو فعال کیا جاتا تو حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔ میاں طارق محمود نے کہا کہ کسی ہسپتال میں ایک بیڈ پر دو‘ دو مریض نہیں، پنجاب حکومت صحت کی بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہے جبکہ آپ کے رہنما کے کینسر ہسپتال میں کوئی غریب علاج کرا ہی نہیں سکتا جس پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا۔ عارف عباسی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ویسے ایوان میں نہیں آتے اور وزراء بھی موجود نہیں ہیں میں احتجاجاً ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کرتا ہوں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک بھی وزیر ایوان میں موجود نہیں۔ محمود الرشید نے کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ 10 کروڑ عوام کا نمائندہ عوام کا سیشن ہو رہا ہے، کیا کابینہ کی میٹنگ س پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے بعد نہیں ہو سکتی تھی۔ وزراء کو یہاں پر ہونا چاہیے تھا کیا یہ ایوان بھیڑ بکریوں کا باڑہ ہے۔ ہم اس پر احتجاجاً واک آئوٹ کرتے ہیں۔ اپوزیشن کے واک آئوٹ کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی بنچوں سے رو‘ عمران رو کے نعرے لگنا شروع ہو گئے جس پر اپوزیشن ارکان نے جاتے ہوئے گو نواز گو کے نعرے لگائے سپیکر کے کہنے پر زعیم قادری اور ملک محمد احمد خان اپوزیشن کو مناکر ایوان میں واپس لائے۔ زعیم قادری نے ایوان میں کہا کہ بہرحال وزراء کو پابند بنانا چاہیے۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر نے ایک قرارداد پیش کرنا چاہیے تاہم سپیکر نے کہا کہ وزراء کا ایوان میں ہونا ضروری ہے۔ جسکے بعد ڈپٹی سپیکر نے وزراء کی ایوان میں عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزراء کی حاضری ضروری ہے اور انکی وجہ سے سرکاری بزنس نہیں ہو سکا۔ جسکے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس آج (جمعرات) صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا۔ علاوہ ازیں میاں محمود الرشید نے کہا پنجاب حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور ان کی نظر میں انسانیت کی نہیں پلوں، سڑکوں اور انڈرپاسز کی قدر ہے اسی لئے شہباز شریف کو اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے انتخابی حلقے میں آتشزدگی سے 6 بچوں کی ہلاکت پر ان کے ورثا سے تعزیت کرنیکی بھی توفیق نہیں ہوئی۔

ای پیپر-دی نیشن