’’اسامہ حکیم اللہ محسود، قاری حسین میں مصالحت کیلئے ثالثی کر رہے تھے‘‘ دستاویز کی مزید تفصیلات
واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں + نمائندہ خصوصی) القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن جہادی تحریکوں میں ہونیوالے اختلافات پر فکر مند تھے، تحریک طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ارسال ایک خط میں انہوں نے ایسے اقدامات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا تھا جو پہلے سے مشکلات کا شکار جہادی تحریکوں کو مزید تقسیم کردیں۔ امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے جاری کی گئی دستاویزات کی مزید تفصیلات کے مطابق میں القاعدہ کے بانی کا وہ خط بھی شامل ہے جو انہوں نے 4 دسمبر 2010ء کو حکیم اللہ محسود کو تحریر کیا تھا۔ان دستاویزات میں سے ایک میں اسامہ نے دعویٰ کیا تھا کہ جہادی کاموں میںالقاعدہ پاکستان تقریباً خودکفیل ہے۔ انہوں نے لکھا تھا پاکستان میں بہت سے گروپس کام کررہے ہیں۔ اسامہ نے حکیم اللہ محسود کو مشورہ دیا کہ وہ تحریک پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے پہلے ارسال ایک خط میں قاری حسین نے اسامہ بن لادن کو مطلع کیا تھا کہ جہادی تحریکوں میں ایسے گروپس اور افراد موجود ہیں جو اختلافات اور داخلی لڑائیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ واضح رہے کہ حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ امریکی دستاویز سے اشارہ ملتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دونوں رہنماؤں کے درمیان القاعدہ کے رہنما مصالحت کیلئے ثالثی کا کردار ادا کررہے تھے۔ یہ دستاویزات امریکی صحافی سیمور ہرش کے تحریر کردہ 10 ہزار الفاظ پر مشتمل ایک تحریر کے ایک ہفتے بعد جاری کی گئیں ہیں۔ سیمور ہرش نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے حوالے سے سرکاری نکتہ نظر پر سوالات اْٹھائے تھے۔ آن لائن کے مطابق دستاویزات مین انکشاف ہوا ہے کہ القاعدہ رہنما نے ’’ مدینہ میں بھارتی بھائی‘‘ سے بھاری رقم وصول کی تھی۔ بھارتی بھائی نے مئی 2009ء میں اسامہ 292400 پاکستانی روپے اور جولائی 2009ء میں 35,000 پاکستانی روپے بھیجے واضح رہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی بھارتی اسامہ کو مالی معاونت فراہم کرتا تھا ۔ وہ خاندان سے محبت کرتے تھے۔ اسکے کوئی شواہد نہیں ملے کہ پاکستانی حکومت کو معلوم تھا وہ یہاں قیام پذیر اور زندہ ہیں ایک خط میں صومالیہ میں آپریشن اور یوگنڈا کے صدر میوسیونی کے قتل کے منصوبے کا ذکر ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان دستاویزات میں اسامہ بن لادن نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے جو کہ القاعدہ کے لوگوں کی غفلت کے باعث پیش آئے۔ ان میں مکانوں کو بمباری کا نشانہ بنائے جانے اور اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا ذکر کیا گیا ہے۔اس دستاویز میں ایک جگہ امریکی طیارے سی 130 کو ’خسیس‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ ایک اور موقع پر ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما شریف اللہ المصری کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ اس نے ان لوگوں سے احتیاط نہیں برتی جن کے بارے میں شریف اللہ کو معلوم تھا کہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس کے مخبر ہیں۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’اور ہمارے لیے ایسا کرنا ضروری ہے لیکن طالبان کو ہماری ضرورت نہیں ہے۔ ہم صرف ان کو اخلاقی اور علامتی مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘اس دستاویز میں امریکی ڈرون حملوں سے ہونے والے نقصانات کا اعتراف کیا گیا ہے۔دستاویزات میں مالی دشواریوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ تاہم سب سے زیادہ ذکر محتلف ملکوں سے آئے ہوئے جنگجوؤں پر قابو رکھنے میں دشواریوں کا ہے۔’ہمارے پاس عرب، ازبک، ترک، ترکستانی، بلقانی، ہر قسم کے روسی، جرمن اور دیگر ملکوں سے آئے ہوئے جنگجو ہیں۔‘’سب سے زیادہ مسئلہ عرب جنگجوؤں کے ساتھ ہے۔ ہمیں بلاجواز تفریق اور اتحادوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کو میں ’جعلی کمانڈر‘ کہتا ہوں۔ یہی مسئلہ ہمیں خراسان میں بھی ہے جو ہمارا بہترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔‘دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ شخصی قوت اور خواہش کے مطابق جہاد کر رہے ہیں۔‘دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ان جنگجوؤں کی جانب سے احکامات کے ماننے سے انکار کے باعث القاعدہ کو نقصان پہنچا ہے اور تنظیم کے اندر مزید تفریق ہو گئی ہے۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس تفریق کے باعث کچھ افراد القاعدہ تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن جہاد جاری رکھتے ہیں اور اپنی لاپروائی کے باعث اپنے آپ کو اور القاعدہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ ہمارے بیچ بیماری ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑی مشکل ہے۔ اگر ہم خاموش رہیں تو بھی مسئلہ ہے اور اگر بات کریں تو بھی مسئلہ ہے۔