ایگزیکٹ سکینڈل کی تحقیقات کے لئے انٹرپول ، ایف بی آئی سے رابطہ کیا جائیگا: نثار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایگزیکٹ سکینڈل کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کیلئے انٹرپول اور ایف بی آئی سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر قانونی معاونت کیلئے برطانیہ سے بھی رابطہ کیا جائیگا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ سکینڈل پر کسی قسم کا دبائو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ ابتدائی تفتیش 7 سے 10 دن میں مکمل ہوجائیگی۔ ایف آئی آر درج ہونی ہے یا نہیں اس بارے بھی 7 سے 10 روز میں فیصلہ ہوگا۔ دو روز میں قانونی مدد کیلئے ایف بی آئی کو خط لکھیں گے، انٹرپول سے بھی رابطہ کریں گے، ہم اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ ایگزیکٹ کا معاملہ اندرون و بیرون ملک اہم ہے۔ برطانوی اداروں سے بھی تعاون کی درخواست کرنے پر غور کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ میڈیا دائیں بائیں کی خبر نہ لے، ڈائریکٹرز سے بات کرے۔ کوئی بھی خبر چلانے سے پہلے ایف آئی اے کے ڈائریکٹرز سے رابطہ کریں۔ اگر آپکے پاس مواد نہیں تو کم از کم ایف آئی اے کا نام نہ لیں۔ ایگزیکٹ کیس کی فوری تحقیق نہ کرتے تو ڈیٹا ضائع کردیا جاتا۔ اطلاعات کے مطابق ایگزیکٹ کے کاروبار کے حوالے سے ایف آئی اے کی جانب سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایگزیکٹ سے برآمد کئے گئے کمپیوٹر ریکارڈ سے 232 جعلی یونیورسٹیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق کمپیوٹرز میں کئی ڈگریاں موجود ہیں جن پر نام موجود ہیں جبکہ کئی ڈگریاں بغیر ناموں کے ہیں۔ برآمد کئے گئے ڈیٹا سے کئی آڈیو ریکارڈنگ بھی برآمد کی گئی ہے۔ ذرائع نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ آڈیو ریکارڈنگ سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹوں کے سیلز ایجنٹ مختلف ناموں سے یہیں سے کام کر رہے تھے۔ سیلز ایجنٹس کی جانب سے زیادہ تر امریکی ناموں کا استعمال کیا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کے کئی سرٹیفکیٹس کی لاتعداد کاپیاں بھی کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ تھیں جن پر کئی کسٹمرز کے نام موجود تھے۔ کراچی میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم ایگزیکٹ آفس پہنچ گئی اور 5 ملازمین کے بیانات قلمبند کئے۔ دوسری جانب نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ کا جعلی ڈگری سکینڈل سامنے لانے کے بعد اسکی جعلی یونیورسٹیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہورہا۔ نیویارک ٹائمز کے نمائندے ڈیکلن والش کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے گزشتہ دنوں ایگزیکٹ سے تعلق رکھنے والی 111 ویب سائٹوں سے رابطہ کیا مگر کسی سیلز ایجنٹ سے رابطہ نہیں ہوسکا، ان یونیورسٹیوں کے فون نمبر بھی بند ہیں۔ ڈیکلن والش کے مطابق ایگزیکٹ کے 10 سے زائد سابق ملازمین نے بھی ان سے رابطہ کیا اور مزید معلومات فراہم کی ہیں۔ سیلز ایجنٹ کے طور پر کام کرنیوالے سکندر ریاض نے بتایا کہ وہ ہینک موڈی کا نام استعمال کرتا تھا۔ وہ ہاروے یونیورسٹی اور نکسن یونیورسٹی کی ڈگریاں فروخت کرتا تھا۔ ایک اور سابق ملازم احمد نے بتایا کہ اس نے تین مہینے میں قریباً 5 لاکھ ڈالر کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔ کمپنی جعلی ڈگریوں کی فروخت سے روزانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک کماتی تھی۔ جعلی ڈگریاں خریدنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکہ سے تھا جو ہائی سکول ڈپلومہ حاصل کرکے فوج میں شامل ہو کر افغانستان اور عراق جانا چاہتے تھے۔ ایگزیکٹ کے ملازمین کو دس پندرہ دن میں ڈگری جاری کرنے کا ٹاسک ملتا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ایگزیکٹ کا جال امریکہ میں بھی پھیلا ہوا تھا اور ایگزیکٹ نے کیلیفورنیا، کولوراڈو اور ٹیکساس میں میل باکس حاصل کر رکھے تھے۔ ادھر ایگزیکٹ آن لائن ڈگریوں کے سکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی امریکہ کی ایک بڑی آن لائن ڈگریوں کا کاروبار کرنیوالی یونیورسٹی نے اپنا ٹیلیفون منقطع کر دیا ہے۔ کیلیفورنیا اور دیگر ریاستوں میں کمیپس اور دفاتر کا دعویٰ کرنیوالی آن لائن یونیورسٹی ’’فورٹ جونز‘‘ یونیورسٹی نے بار بار رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جعلی یونیورسٹیوں کے عالمی سکینڈل کے بعد ہائر ایجوکیشن کمشن (ایچ ای سی) نے ملک بھر میں ایسی 185 غیرمعتبر یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کئی برسوں سے چل رہے ہیں۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر نثار احمد کا کہنا ہے کہ حالیہ سکینڈلز کے تناظر میں ہم نے تمام پبلک سیکٹرز یونیورسٹیوں کا اجلاس بلایا ہے تاکہ چند شہروں میں موجود متعدد غیر مجاز کیمپس کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے ہیڈ آفس میں موجود سرورز اور کمپیوٹرز سے اہم ریکارڈ محفوظ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے ایگزیکٹ کے ہیڈ آفس میں موجود کمپیوٹرز سے ڈیٹا ڈی کوڈ کیا جارہا ہے اور اب تک حاصل ہونیوالے ڈیٹا میں کئی ایسی ڈگریاں سامنے آئی ہیں جن پر نام موجود نہیں تھے۔ امریکی وزیر خارجہ کے کئی سرٹیفکیٹس کی لاتعداد کاپیاں بھی کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ تھیں جن پر کئی کسٹمرز کے نام موجود ہیں۔ایگزیکٹ کے کمپیوٹرز سے کئی آڈیو ریکارڈنگ بھی برآمد کی گئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹیز کے سیلز ایجنٹ یہیں کام کررہے تھے اور وہ کسٹمرز کو متاثر کرنے کیلئے مختلف فرضی ناموں سے انہیں مطمئن کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ایگزیکٹ سکینڈل پر تحقیقات جاری ہے۔ الزامات ثابت ہونے پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی۔ جعلی ڈگری بنانے والوں کیخلاف تحقیقات ہورہی ہیں جو ملوث ہونگے ان کیخلاف کاروائی کی جائیگی۔ سینئر صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا کہ کسی کو جعلی ڈگری بنانے کا حق نہیں ، واقعہ سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ ماضی بھی کچھ سیاستدان بھی ایسے ہی تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرتے رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں۔ چودھری نثار نے کہا کہ ایگزیکٹ کے خلاف تحقیقات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں سے مدد لینا چاہتے ہیں، ایگزیکٹ 2006ء میں رجسٹرڈ ہوا تھا اور 2008ء کی حکومت سے پوچھیں، ایف آئی اے نیب نہیں جو کیس اس کو ریفر کیا جاتا ہے اسی پر کام کیا جاتا ہے برطانوی پولیس اور عدالت سے قانونی چارہ جوئی کیلئے مدد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایگزیکٹ پر ضرورت سے زیادہ ایف آئی اے کے حوالے سے خبریں شائع نہ کی جائیں، کراچی اور اسلام آباد میں اس بارے میں تحقیقات جاری ہے بغیر کسی مصدقہ اطلاعات کے خبریں شائع نہ کی جائیں اس سے تحقیقات کارروائی پر منفی اثرات پڑتے ہیں اگر خبر کے حوالے سے مواد نہ ہوتو ایف آئی اے کو نہ کیا کریں وہ قابل اعتماد ادارہ ہے ہمیں روایتی نکتہ چینی سے گریز کرنا ہوگا۔میڈیا رپورٹس پر کئی احکامات دیتا ہوں آپ ہمارے آنکھ کان ہیں اور ہم آپ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ چودھری نثار نے کہا کہ ایگزیکٹ سکینڈل کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے ایف آئی اے کے سامنے ٹھوس چیزیں آئی ہیں میڈیا جس طرح ایگزیکٹ کے معاملے پر یکجا ہوا ہے اسی طرح کرپشن، بدعنوانی، پارلیمنٹ اور اداروں میں موجود جعلی ڈگریوں والوں کیخلاف بھی یکجا ہو جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا ہے کہ جس طرح بول اور ایگزیکٹ کے خلاف اداروں نے پھرتیاں دکھائیں اس طرح ذوالفقار مرزا کے الزامات اور سپریم کورٹ کے اصغر خان کے فیصلے پر بھی عملدرآمد ہونا چاہئے اداروں کے اندر خود مختاری ہونی چاہئے۔
کراچی (وقائع نگار+ ایجنسیاں) ایگزیکٹ سکینڈل کے بعد ایگزیکٹ میڈیا گروپ کے صدر کامران خان، نیوز چینل ’’بول‘‘ کے صدر اور سی ای او اظہر عباس، سینئر صحافی عاصمہ شیرازی، افتخار احمد، نصرت جاوید اور مشتاق منہاس نے ایگزیکٹ میڈیا گروپ اور ’’بول ٹی وی‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض نے بھی ایگزیکٹ کے چینل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ کامران خان نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایگزیکٹ سے متعلق تحقیقات ہورہی ہیں، الزام ثابت نہیں ہوا لیکن وہ اپنے ضمیر کے مطابق مزید ادارہ سے وابستہ نہیں رہ سکتے، تحقیقات ہو رہی ہیں اسلئے اخلاقی طور پر عہدے پر نہیں رہ سکتا، علیحدگی اختیار کررہا ہوں۔ اظہر عباس نے بھی علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شعیب شیخ بول ٹی وی کو ایگزیکٹ سے علیحدہ کریں تو سوچا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کام جاری نہیں رکھ سکتے، بول ٹی وی کو چھوڑ رہا ہوں۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وہ بھی بول ٹی وی چھوڑ رہی ہیں، معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے، سچ سامنے آنا چاہئے ۔ سینئر صحافیوں افتخار احمد، نصرت جاوید اور مشتاق منہاس نے بھی ادارے سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ مینجمنٹ سے کچھ سوالات کے جواب مانگے تھے وہ نہیں مل سکے۔