’’بھٹو اور ضیاء کی باقیات!‘‘
نامور لوگوں کے چاہنے والے اُن کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں جاننا بھی چاہتے ہیں۔ جناب عمران خان کی 62 سال کی عمر میں دوسری شادی پر ابھی تک تبصرے ہو رہے ہیں۔ محترمہ ریحام خان ابھی تک نوبیاہتا دُلہن کی طرح رش لے رہی ہیں۔
عمران خان کا اِستخارہ؟
ایک انٹرویو میں محترمہ ریحام خان نے کہا کہ ’’دھرنے کے دوران مَیں کنٹینر میں عمران خان سے مِلنے گئی تو انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے مجھے شادی کی پیشکش کر دی۔ پھرمیرے والدین کے نام پوچھنے لگے اور کہا کہ ’’میں اِستخارہ کرائوں گا کہ آپ سے میری شادی ٹھیک رہے گی یا نہیں؟‘‘۔ مَیں نے عمران خان کو ایک لیکچر دِیا اور بتایا کہ اِستخارہ کسی سے کرایا نہیں جاتا خود کِیا جاتا ہے‘‘۔
محترمہ ریحام خان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران نے اِستخارہ کئے بغیر ہی شادی کر لی۔ ایسی شادی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ’’شادی کی نہیں جاتی، ہو جاتی ہے‘‘۔ عمران خان چونکہ پہلے سے ہی ’’شادی گزِیدہ‘‘ تھے، شاید اِسی لئے انہوں نے دوسری شادی سے پہلے اِستخارہ کے بارے میں سوچا لیکن ہونے والی بیگم کے لیکچر کے بعد؎
دِل ہمارا گواہی دیتا ہے
اِستخارہ گواہی دیتا ہے
کی کیفیت میں مُتلا ہو کر اِستخارہ کِیا ہی نہیں۔ عمران خان اور اُن کی پاکستان تحریکِ انصاف کی اٹھان بہت اچھی تھی اور 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان تحریکِ انصاف دوسری بڑی پارٹی بن گئی لیکن انہوں نے اپنی پارٹی میں بہت سے ایسے لوگوں کو اِستخارہ کئے بغیر شامل کرلِیا جن کے بارے میں حافظ شیرازی بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ؎
بعزمِ توبہ، سحر گُفتم اِستخارہ کُنم
بہارِ توبہ شِکن مِیرسد چہ چارہ کُنم
یعنی ’’مَیں نے صبح کو کہا کہ توبہ کے ارادے سے اِستخارہ کروں گا توبہ شکن بہار آ رہی ہے، کیا تدبیر کروں؟‘‘
’’ہر کوئی گائے کے گُن گائے!‘‘
بھارت کے وزیر پارلیمانی امور سیّد مُختار عباس نقوی کا تعلق بھارتیہ جَنتا پارٹی سے ہے، اِس لئے بھارتی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے سے منع کرنا اُن کی سیاسی مجبوری ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ عقیدے اور ایمان کی بات ہے اور ہندوئوں کے لئے حسّاس مسئلہ ہے، اِس لئے بھارت کے جو مسلمان گائے کا گوشت کھانا چاہیں وہ پاکستان یا کسی عرب مُلک چلے جائیں‘‘۔ نقوی صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ گائے کا گوشت کھانے کے خواہشمند مسلمان مستقل طور پر پاکستان یا کسی عرب ملک چلے جائیں یا جاتے آتے رہیں؟
بھارت کے داراُلعلوم دیو بند کے عُلماء پہلے ہی ارشاد فرما چکے ہیں کہ ’’ہندوئوں کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے مسلمان گائے کی قربانی نہ کِیا کریں!‘‘ یہ فتویٰ بھی شاید مسلمانوں کو انتہا پسند ہندوئوں کے شر سے بچانے کے لئے دِیا گیا ہے۔ پاکستان اوردوسرے مسلمان ملکوں میں عیدِ قربان پر اور عام دِنوں میں بھی گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے اور بھارت کے سِوا عیسائی مُلکوں میں بھی۔
پاکستان میں ہندوئوں کے جذبات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے لیکن 15 جون 2013ء کو سینٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس راجا ظفر الحق کی صدارت میں منعقدہ ہوا لیکن اُس وقت مسلم لیگ (ن) کے ہندو رُکن ڈاکٹر رمیش کمار ونگوانی نے ہنگامہ کردِیا تھا کہ ’’دوپہر کے بھوجن (کھانے) میں بکرے کا گوشت کہہ کر گائے کا گوشت کیوں کِھلایا گیا ہے‘‘۔ مسلم لیگ کی خواتین ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی رمیش کمار جی کی حمایت کی تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے فوری طور پر حکم سنا دِیا تھا کہ ’’جُرم ثابت ہونے پر کیٹرنگ کمپنی کو اُس کے بل کی ادائیگی نہیں کی جائے گی‘‘۔ جُرم ثابت ہُوا یا نہیں؟ فی الحال یہ خبرعام نہیں ہُوئی لیکن بھارت اور پاکستان میں ہر کوئی ’’گائے کے گُن گائے‘‘ کا مشترکہ ترانہ عام ہوگیا۔
’’بھٹو اور ضیاء کی باقِیات!‘‘
خبر ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپنے والد صاحب جنابِ زرداری پر واضح کردیا ہے کہ’’مَیں پارٹی میں جنرل ضیاء اُلحق کی باقِیات کو برداشت نہیں کروں گا‘‘ اور دوسری خبر کے مطابق پارٹی کے ایک اہم لیڈر جناب فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ’’پیپلز پارٹی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور لوگ پارٹی میں آتے ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں، کسی کو روکا نہیں جاسکتا‘‘۔ عربی زبان کے لفظ ’’باقی‘‘ کا مطلب ہے جو بچ رہے، بچا کھچا، رہا سہا اور بقایا اور ’’باقِیات‘‘ ہے۔ باقی کی جمع ہماری قومی سیاسی تاریخ میں ’’سیاسی باقِیات‘‘ کا تذکرہ رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
ایک دَور میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو، سکندر مرزا اور ایوب خان کی باقِیات میں شمار ہوتے تھے اور پھر بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ’’بھٹو کی باقِیات‘‘ اور میاں نواز شریف کو ’’ضیاء کی باقِیات‘‘ کہا جانے لگا لیکن تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف اب ’’ضیاء کی باقِیات‘‘ نہیں کہلاتے اور جنابِ زرداری بھی ایسا نہیں کہتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی سے پہلے جناب آصف زرداری ’’بھٹو کی باقِیات‘‘ نہیں کہلاتے تھے۔ جنرل ضیاء اُلحق کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں چیئرمین بلاول کے دادا سائِیں حاکم علی زرداری اور جناب آصف زرداری نے حِصّہ لِیا تھا اور دونوں ہار بھی گئے تھے لیکن انہیں کسی نے بھی ’’ضیاء کی باقیات‘‘ نہیں کہا۔
1988ء کے عام انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں، اس سے قبل قائمقام صدر غلام اسحاق خان اور وزیر خارجہ صاحبزادہ محمد یعقوب علی خان تھے۔ اُن مقتدر قوتوں جنہوں نے صدر جنرل ضیاء اُلحق کی زندگی ہی میں اپریل 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپس لانے کا انتظام کِیا تھا اُن کی ہدایت پر ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکم دِیا کہ ’’غلام اسحق خان کو صدرِ پاکستان منتخب کرا دیں اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ہی وزیر خارجہ بنائے رکھیں‘‘۔ محترمہ نے حُکم کی تعمیل کی۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بھی ’’ضیاء کی باقیات‘‘ کہلاتے تھے، جنابِ زرداری نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا منصب سنبھالتے ہی چودھری برادران کی مسلم لیگ (ق) کو ’’قاتل لیگ‘‘ بھی قرار دیا تھا لیکن پھر؎
زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کردوں!
کے فارمولے کے تحت چودھری پرویزالٰہی کو ’’ڈپٹی پرائم منسٹر‘‘ بنا دیا گیا۔ جو قوّتیں جمہوری لیڈروں کو اقتدار میں لاتی ہیں، اُن لیڈروں کی کیفیت یہی ہوتی ہے کہ…
محفل اُن کی، ساقی اُن کا
آنکھیں میری، باقی اُن کا
جناب زرداری نے اپنے اکلوتے فرزند کے بارے میں بجا طور پر کہا تھا ’’بلاول کو ابھی "Mature" ہونے میں کچھ دیر لگے گی‘‘۔ کتنی دیر؟ یہ بات جنابِ زرداری نہیں جانتے اور نہ ہی ’’فنافی/ پیپلز پارٹی‘‘ جناب فرحت اللہ خان بابر ۔ جو لوگ جنابِ زرداری اور چیئرمین بلاول کی پاکستان پیپلز پارٹی سے باہر ہیں، اُن میں سے بھی بہت سوں کو ’’بھٹو کی باقِیات‘‘ ہونے کا دعویٰ ہے۔ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو اور ڈاکٹر مُبشر حسن صاحب (خدا انہیں عمرِ خِضر عطا فرمائے) اُس دِن کے لئے جی رہے ہیں جب مستقبل میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے عام جلسوں میں…
’’ وِیر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘
کے نعرے گونج رہے ہوں گے۔