میٹرو فوبیا ابھی ختم نہیں ہوا!
پاکستان میں سال 2008ء کے عام انتخابات ہوئے تو مرکز میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ پنجاب میں شہباز شریف، سندھ میں قائم علی شاہ، خیبرپختونخوا میں امیر حیدر ہوتی جبکہ بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بنے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پانے کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نے قدم جمانے شروع کیے تو غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی نئے مواقع تلاش کرنے کیلئے پاکستان کا رُخ کرلیا۔ اسی دوران برادر اسلامی ملک ترکی سے مرکزی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے سربراہان کو ترکی کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے، سمجھنے اور اپنے اپنے صوبوں کیلئے بہتری کے مواقع ڈھونڈنے کیلئے ترکی کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ دورہ ترکی کی دعوت ملنے پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو طے شدہ شیڈول کے مطابق اگلے ہی ماہ ترکی چلے گئے، لیکن قائم علی شاہ نے مصروفیت کا بہانہ بناکر محض شکریہ ادا کرنے پر ہی اکتفا کیا جبکہ امیر حیدر ہوتی اور اسلم رئیسانی نے اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ میاں شہباز شریف نے اپنے دورے میں ترکی کے دو بڑے شہروں استنبول اور انقرہ کو کھنگال ڈال۔ ترکوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو کہا ’’ یہ ہے ہمارا ترقی کا ماڈل، آپ کو جو چاہیے، لے جائیں‘‘۔ اس دورے میں شہباز شریف ترکی کی ترقی کے ماڈل سے بہت متاثر ہوئے، اس ماڈل میں سے میاں شہباز شریف نے ’’شہری خدمات‘‘ میں ترکی کی حیران کن ترقی کا بغور جائزہ لیا اور وطن واپس آتے ہی لاہور میں استنبول کی طرز پر میٹرو بس سروس منصوبے کا اعلان کردیا۔ پاک ترک انٹر نیشنل اسکول اسلام آباد کے ڈائریکٹر ترگت پایان بتاتے ہیں کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان(اُس وقت کے وزیراعظم) کے درمیان ہاٹ لائن پر چوبیس گھنٹے رابطہ قائم رہتا تھا، شہباز شریف کو جب اور جہاں کوئی مشکل پیش آتی تو وہ صبح کے تین بجے بھی براہ راست رجب طیب اردوان کو فون کرکے میٹرو منصوبے کی جزیات پر بات کرنے لگتے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کا میٹرو منصوبہ انتہائی کم مدت میں مکمل ہوا اور شہریوں کے استعمال کیلئے کھول دیا گیا۔ میٹرو منصوبے نے لاہور کا ہزاروں برس قدیم چہرہ جدیدیت میں بدل کر رکھ دیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی شہباز شریف نے پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی میٹرو منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کردیا ۔ لاہور کے بعد اب راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میٹرو منصوبہ تقریبا مکمل ہوچکا ہے اور اسی ہفتے اس منصوبے کا افتتاح ہونے جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 44 ارب روپے کا یہ ترقیاتی منصوبہ ملکی تعمیر و ترقی و تعمیراتی سرگرمیوںکے عمل میں تیزی لانے کا باعث بنا۔ اس منصوبے کے کئی رنگ ہیں، مثال طور پر گزشتہ چند برسوں کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے ٹرانسپور ٹ کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت تھی، میٹرو منصوبے سے صرف عوام کونقل و حمل میں ہی آسانی نہیں ملے گی بلکہ اس سے ٹرانسپورٹ کا دیرینہ مسئلہ حل ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے۔ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولیات میسر آنے کے بعد جڑواں شہروں میں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی امید کی جارہی ہے، جو محفوظ طور پر سفر کرتے ہوئے اسلام آباد کے حسن اور سیاحت سے لطف اندوزہوسکیں گے۔راولپنڈی اسلام آباد میٹرو منصوبہ سے ناصرف بحفاظت اور محفوظ سفر کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوگی بلکہ ٹریفک حادثات سے بچائو میں بھی مدد ملے گی۔ راولپنڈی اسلام آبادمیٹرو بس منصوبہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے بہائو اور روانی میں بھی بہتری کی بھی امید ہے، جس سے پیدل چلنے والے مسافر بھی پہلے سے زیادہ محفوظ ہو جائیں گے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے جو ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کے بحیثیت مجموعی کرہ ارض اور ہمارے ملک پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں،لیکن میٹرو بس منصوبہ چونکہ گرین پراجیکٹ منصوبہ کہلاتا ہے اور اس منصوبے میں چلنے والی گاڑیوں میں جو ایندھن استعمال ہوگا، وہ ماحول دوست ایندھن ہوگا، یوں یہ منصوبہ ماحولیاتی مسائل حل کرنے میں ایک طرح سے ممد و معاون ثابت ہوسکے گا۔ سرکاری ملازمین اور عام مسافروں کے ساتھ ساتھ ہر روز جن لوگوں کے ٹریفک کے مسائل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، اُن میں طلبا بھی شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے ، یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز میٹروبس سروس پراجیکٹ کے راستے میں ہی پڑتے ہیں اس لیے اس منصوبہ سے طلباء بھی بھرپور طریقے سے مستفید ہوسکیں گے۔اس کے علاوہ راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس پراجیکٹ کے راستہ میں چونکہ بہت سی لیبارٹریاں اور اسپتال بھی آتے ہیں، جن میں پمز اسپتال، پولی کلینک اور بے نظیر بھٹو شہید اسپتال راولپنڈی جیسے بڑے اسپتال بھی شامل ہیں، اس طرح اس منصوبے کے ذریعے اسپتالوں میں جانے والے مریضوں کو معیاری سروس حاصل کرنے میں اور اُن کی اسپتالوں تک رسائی میں آسانی ہوسکے گی، جس سے ایمرجنسی کے بعض مریضوں کی زندگیاں بچانے میں بھی مدد مل سکے گی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹروبس سروس کے چوبیس اسٹیشز بنائے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی کی سفری ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔عام لوگوں کے زیر استعمال گاڑیوں میں مسافروں کی کم گنجائش اور گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر نہ صرف ٹریفک جام ہوتی ہے بلکہ ایندھن اور وقت کاضیاع بھی ہوتا تھا، امید کی جانی چاہیے کہ لاہور کی طرح جڑواں شہروں میں بھی میٹروبس سروس کا آغاز ہونے سے ٹریفک کے غیر ضروری رش میں کمی واقع ہوگی اور لوگوں کوتیزرفتار، صحت مندانہ اور محفوظ سفر کی سہولت مل سکے گی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں بہت سی کمیاں، کوتاہیاں اور خامیاں ہونگی، لیکن میٹرو بس کا یہ اکیلا منصوبہ اُس کی بہت سی خامیوں پر قابو پانے کیلئے کافی ہے، اس کا اندازہ درمیانِ طبقے کا صرف وہی سفید پوش شخص کرسکتا ہے جو اپنے دفاتر سے بہت دور رہتا ہو اور اُسے روزانہ ویگنوں کے دھکے کھانے پڑتے ہوں۔ گزشتہ برس اگست میں دھرنے کے دوسرے روز ہی پی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انکشاف کیا تھا کہ’’ لاہور میں دھاندلی تو پتہ نہیں ہوئی یا نہیں ، لیکن لاہور میں پی ٹی آئی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ میٹرو بس کا منصوبہ تھا، میٹرو جن حلقوں سے گزری، وہاں پی ٹی آئی بھاری مارجن سے ہار گئی‘‘۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ برس دھرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو خدشہ تھا کہ اگر راولپنڈی اسلام آباد کا میٹرو منصوبہ بھی بن گیا تو پھر راولپنڈی ڈویژن سے بھی تحریک انصاف کا صفایا ہوجائے گا،غالبا اِسی خدشے کو بھانپتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید دھرنے اور دیگر جلسوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے ٹائیگروں کو مرنے مارنے تک کیلئے ’’اُبھارتے‘‘ رہے۔ قارئین کرام!! ترک دوستوں کے مطابق’’ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان کی نئی مرکزی اور چاروں نئی صوبائی حکومتوں کو ایک مرتبہ پھر ترکی آنے کی دعوت دی گئی، ترکی کے معاملے میں شہباز شریف کا معاملہ تو اب گھر والا بن چکا ہے، لیکن سندھ اور کے پی کے حکومتوں کی جانب سے جواب ایک بار پھر نفی میں ملا‘‘۔ لیکن دو سال کے اڑیل پن کے مظاہرے کے بعد ایک اچھی خبر اب یہ بھی ہے کہ کے پی کے کی حکومت بھی ترکی کی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کیلئے آمادہ نظر آتی ہے۔اطلاعات کے مطابق پشاور میں میٹرو بس چلنے کے راستے میں حائل رکاوٹیں ختم ہوگئیں ہیں، لیکن اس بس سروس کا نام میٹرو کے بجائے کچھ اور ہوگا کیونکہ میٹرو فوبیا ابھی ختم نہیں ہوا۔