• news

کیا پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کی کوئی پارٹی ہے؟

زندگی کا ایک حصہ بھٹو فیملی کے ساتھ گزارنے اور ان دنوں میاں نوازشریف کے چھپرسائے تلے دن کانٹنے والے ادیب، کالم نگار راجہ انور ایک خبر لائے تھے۔ پچھلے برس انہوں نے یہ بات اپنے ایک کالم میں لکھی کہ بینظیربھٹو کسی جاگیردار سے شادی کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔ جاگیردار سیاسیات میں بھی من مانی کرتا ہے اور ازدواجی زندگی میں بھی۔ اسی لئے بینظیربھٹو کیلئے ان کی خواہش کے مطابق مڈل کلاس سے بر ڈھونڈا گیا۔ ادھر پاکستانی سیاست میں ’’برکت‘‘ بہت ہے۔ پھر سیاست کی راہ سے ہی مڈل کلاسیا زرداری جاگیردار بن گیا۔ آج یہی جاگیردار سیاستدان کیا جوش و خروش اور خشوع و خضوع سے کہہ رہا ہے کہ ہم سیاست کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ سچی بات ہے کہ وہ سیاست کو ڈی ریل کیوں ہونے دیں گے؟ سیاست کی گاڑی چلنے میں ہی ساری عافیت ہے۔ ورنہ پھر احتساب اور نیب کے سٹیشنوں پر گاڑی رک جاتی ہے۔ آئیں آپ کو وہاں لے چلتے ہیں جہاں ریل ہی نہیں، پھر سیاست نے وہاں ڈی ریل کیا ہونا ہے۔ یہ دبئی ہے۔ یہاں 1958ء میں پہلا ڈاکخانہ کھلا، اس سے پہلے ہفتہ میں تین دن ڈاک کے تھیلے شہر کے وسط میں ایک مقررہ جگہ لا کر رکھے جاتے۔ لوگ جمع ہو جاتے، ڈاکیا نام پکارتا جاتا۔ جو غیرحاضر ہوتا‘ اس کا لفافہ اگلے ڈاک پھیرے میں ملتا۔ 29 مئی 1959ء کو دبئی میں بننے والی پہلے فضائی پٹی سے پہلا جہاز اڑا۔ کچے رن والے کی لمبائی چھ ہزار فٹ تھی۔ ان دنوں پاکستان کی پی آئی اے دنیا کی پہلے نمبر آنے والی فضائی کمپنیوں میں سے ایک تھی۔ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تو ابھی کل کی بات ہے، جب 30 ستمبر 1980ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ آج اس کا شمار دنیا کے تین مصروف ترین ایئرپورٹوں میں ہوتا ہے۔ باقی دو ایئرپورٹ ہیتھرو اور شکاگو میں ہیں۔ اب ’لاجواب لوگ اور بے مثال سروس، والی پی آئی اے 15 جون سے اپنی امریکی پروازیں بند کرکے خلیجی ایئرلائن کو حقوق ٹرانسفر کردے گی۔ پی آئی اے اور اتحاد ایئرویز کے درمیان معاملات انتہائی رازداری سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے مشیر برائے ہوا بازی شجاعت عظیم کی ہدایت پر طے کئے گئے ہیں۔ پی آئی اے یونین کے سابق رہنما اور موجودہ حکومتی سینیٹر گزشتہ جمعہ کو نیو یارک پہنچے جن کے بھائی پی آئی اے کے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ اس سلسلہ میں قانونی دستاویزات اور پی آئی اے کی پروازیں بند کرنے کا حتمی معاہدہ حکومتی سینیٹر کی زیرنگرانی فائنل کیا گیا۔ اس سے قبل زرداری حکومت نے ترکش ایئر لائنز کے ساتھ اسی قسم کا معاہدہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان نو سے کم کرکے ہفتہ میں دو پروازیں رہ گئی تھی۔ اب موجودہ دو پروازیں جو دونوں جانب سے پوری گنجائش کے ساتھ پرواز کرتی ہیں وہ بند کرکے اتحاد ایئرویز کو حقوق دے دیئے گئے ہیں۔ ایک مرتبہ یہ روٹ بند ہو جانے کے بعد پی آئی اے کو یہ روٹ دوبارہ نہیں مل سکتا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ شاید ہمارے ڈاکخانوں کی عمارتیں بھی بہت جلد پرائیویٹ کوریئر سروس کی کمپنیوں کو کرایہ پر دے دی جائیں گی۔ پھر یہ کرایہ بہت معمولی سا ہوگا تاکہ ان کوریئر کمپنیوں کو کوئی بار محسوس نہ ہو۔ برسوں پہلے افضل احسن رندھاوا نے کہا تھا؎
ٹکٹاں والے پیدل ٹردے
بے ٹکٹاں دی ریل اے بچڑا
یہ اس سہانے زمانے کی باتیں ہیں جب ہمارے ملک میں ریل گاڑی چلا کرتی تھی۔ ’’گڈی آئی‘ گڈی آئی نارووال دی۔‘‘ اب تو صرف نشانی کے طورپر ریلوے سٹیشن اور ریلوے وزیر ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ان دنوں ٹکٹوں والے بھی تھے‘ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے بھی اور ٹکٹ چیکر بھی۔ اب ریل ہی نہیں رہی‘ پھر مسافروں اور مسافر گاڑیوں کا کیا مذکور۔ اب ہمیں ہر دم صرف یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل نہ ہو جائے۔ آصف علی زرداری نے جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کیلئے ایک انوکھی تجویز دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرنیل نے جرنیل کو اور کسی جج نے جج کو‘ کسی جرنلسٹ نے کسی جرنلسٹ کو کبھی کرپٹ نہیں کہا مگرسیاستدان‘ سیاستدان پر کرپٹ ہونے کے الزامات لگاتا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ آصف زرداری جمہوریت کی فکر چھوڑیں اور اپنی جماعت کی فکر کریں۔ ملتان میں تازہ ترین ضمنی الیکشن میں اس کے ووٹ (ن) لیگ سے تقریباً چھ گنا اور تحریک انصاف سے چند گنا کم نکلے۔ میں نے لکھا تھا کہ پیپلزپارٹی مر چکی‘ اسلام آباد جائوں گا تو برادرم ضیاء اللہ کھوکھر سے اس کی تعزیت کروں گا۔ ایک برس ہونے کو آیا‘ وہ ابھی تک مجھ سے خفا ہے۔ کسی پاگل ماں کی طرح ہی ناراض۔ جو اپنے بچے کی نعش دینے سے انکاری ہے کہ وہ بے چاری اسے ابھی تک زندہ سمجھے بیٹھی ہے۔ حالانکہ سچ یہی ہے۔جو شعیب بن عزیز نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے۔
یہ تیرے دوست تجھے دفن کیوں نہیں کرتے
شعیب فوت ہوئے تجھ کو اک زمانہ ہوا
یہ سچ سبھی اہم لوگ سمجھ چکے۔ بہت سے قابل ذکر پارٹی چھوڑ چکے۔ باقی پرتو لے اڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اب اس پارٹی میں صرف ایسے ویسے لوگ ہی رہ گئے ہیں جنہیں بارات کے جانے کے بعد دولہا کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ پھر وہ وہاں بڑے اہتمام سے بیٹھتے بھی ضرور ہیں۔ پیپلزپارٹی کی موت پاکستان کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ آج پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کی کوئی آواز نہیں۔ ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ سراج الحق کی جماعت اسلامی بھی نہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاب بھی نہیں رہی‘ (ن) لیگ‘ وہ کوئی ایسی دعویدار بھی نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن