محکمہ ڈاک کی کرپشن پر پنجاب حکومت خاموش کیوں؟
مکرمی! 25-20 سال میں محکمہ ڈاک کی انتظامیہ نے اسے بدعنوانی میں عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اسلحہ ٹکٹ پرنٹنگ پریس سے چوری کر کے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے آئوٹ آف ریکارڈ تمام ڈاکخانوں میں سپلائی کرنا بے نظیر انکم سپورٹ فنڈز کی رقوم عملہ کے ساتھ مل کر ہڑپ کرنا جیسے فراڈ منظر عام پر آ چکے ہیں۔ موٹر وہیکل ٹیکس کی 820 کتابیں غائب ہونے سے محکمہ کو کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ محکمہ ڈاک میں بعض ملازمین کی ملی بھگت سے جعلی ٹکٹیں جاری کر کے رقم خورد برد کر لی جاتی ہے۔ بڑے طریقے سے سارے معاملات کئے جاتے ہیں۔ ٹوکن جمع کروانا ہے تو اس کی رقم کی اسے رسید جاری کر دی جاتی ہے۔ رسید اصل ہوتی ہے اور ایکسائز والے اگر گاڑی مالکان سے کوئی ثبوت مانگتے ہیں تو رسید دکھا دی جاتی ہے۔ جبکہ کمپیوٹر میں اس کے ریکارڈ کو ختم کر دیا جاتا ہے اور یوں شام تک اکٹھی ہونے والی رقم چند اہلکار آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں رپورٹ کے مطابق موٹر وہیکل ٹیکس کی 820 کتابیں غائب ہیں۔ ویجی لینس ٹیم نے فروری 2005ء کو چھاپہ مارا تو تب 27 کروڑ کے فراڈ سامنے آئے تھے۔ اس دھندے میں نیچے سے لے کر اوپرتک سبھی افسران بقدر حبثہ قدر وصول کرتے ہیں ان افسران نے محکمہ ڈاک کو لوٹنے پر ایکا کر رکھا ہے۔ کسی کے خلاف اگر انکوائری ہو تو اثر و رسوخ استعمال کر کے وہ بند کروا دی جاتی ہے۔ یکم جولائی سے 9 جولائی 2014 ء صرف 9 دن میں 385 انٹریز ختم کر کے قومی خزانے کو تقریباً 30 لاکھ 80 ہزارروپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ موٹر وہیکل ٹوکن ٹیکس دہندگان کے پاس جون 2015ء تک کی ادا شدہ کمپیوٹرائزڈ رسیدیں موجود ہیں لیکن لاہور جی پی او کا کمپیوٹر کسی بھی رسید کو سپورٹ نہیں کرتا۔ محکمہ ایکسائز کو بڑا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق چار برسوں میں 3 ارب 50 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کروائے گئے۔ خادم پنجاب ویسے تو بہتر گورننس کی بات کرتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کو بھی کرپشن سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن لاہور جی پی او ہیڈ کوارٹرز میں کیا ہو رہا ہے۔ اس سے وہ بے خبر ہیں۔ اس سارے فراڈ کا کھوج لگانے کے لئے کمپیوٹر کے مین سرور کو قبضے میں لے کر اس سکینڈل کی تحقیق کی جائے تو ساری صورتحال سامنے آ جائے گی۔ حکومت پنجاب کو اس کرپشن کا فی الفور نوٹس لینا چاہئے۔ (ملک محمدعقیل ارشاد، لاہور)