پٹوار کلچر کے خاتمے کے لئے اقدامات
میں اس اصول کا قائل ہوں کہ حکومت کے عوام کے لئے کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی تعریف ضرور ہونی چاہئے۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس میں ’’کاسہ لیس‘‘ کا عنصر شامل نہ ہو پائے۔ مسائل کے حل کے لئے کی جانے والی تعریف سے جہاں کسی سوسائٹی کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہاںحکومتی اداروں کو بھی مزید پنپنے اور مستحکم ہونے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ من حیث القوم گزشتہ 70 برس سے ہمارا یہ قومی المیہ رہا ہے کہ حکمران جو کہتے ہیں۔ اوّل تو وہ کرتے ہی نہیں۔ اگر بحالت مجبوری کچھ کرتے بھی ہیں۔ تو اسے نا مکمل چھوڑ کر ’’کرنے کی سوچ کو‘‘ ہمیشہ کے لئے سلا دیتے ہیں۔ جبکہ یہی وہ افسوسناک عمل ہے جس سے غیور قومیں اپنی پہچان کھودیتی ہیں۔ خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف جو سرکاری طور پر تو ’’وزیراعلیٰ‘‘ کے مرتبے پر فائز ہیں مگر عوامی خدمت اور اپنی سادگی کے حوالے سے اپنے آپکو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلوانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں اہل پنجاب کے تعمیرو ترقی کے لئے مختص منصوبوں کو تکمیل کے لئے آجکل زیادہ ہی مصروف نظر آرہے ہیں۔ انکی ’’ایڈمنسٹریشن پاور‘‘ اور یاداشت کا میں خود بھی معترف ہوں۔ پاکستان میں 40 لاکھ بے روزگار نوجوان کو غم روزگاری سے نجات دلوانے کے انکے غم کو بھی سمجھتا ہوں۔ ہم تارکین وطن کے لئے حال ہی میں لاہور میں قائم ’’اوورسیز کمیشن پنجاب‘‘ کا بھٹی صاحب کو کمشنر مقرر کرنے اور پلاٹوں کو قبضہ گروپوں سے واگزار کروانے کے عملی اقدامات کا بھی مجھے ادراک ہے۔ لاہور کی جنگلہ بس جس میں ابھی تک بیٹھ نہیں پایا۔ اور مستقل قریب میں لاہور ہی میں چلنے والی ’’اورنجن میٹرو ٹرین اور نالج پارک کی تعمیر کے فیصلے کا بھی انہیں ضرور کریڈٹ دینا چاہئے۔ خادم اعلیٰ کی ’’لیپ ٹاپ‘‘ سکیم اور نا بینائوں اور معذوروں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت فراہم کرنے کی اطلاعات بھی وقتاً فوقتاً موصول ہوتی رہتی ہیں۔ بلکہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق ’’خادم اعلیٰ ‘‘ نے صاف پانی پینے کے لئے اے ٹی ایم مشینوں کی طرز پر نئے واٹر پلانٹ لگانے کے منصوبہ کو بھی آخری شکل دے دی ہے جو بظاہر تو درست نظر آرہی ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ قطار بنانا ، قطار میں کھڑے ہونا، اور اپنی باری پر اپنا کام کروانے کا رواج پیدا ہی نہیں ہوسکا۔ اس لئے مجھے یہ خدشہ ضرور ہے کہ جس طرح بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعے پیسے نکلواتے ہوئے ’’ڈیبٹ کارڈ‘‘ دغا دے جاتے ہیں اس طرح بہت ممکن ہے کہ ’’صاف پانی کے حصول‘‘ میں آب آب کرتے ہوئے لوگوں کی کہیں جان ہی نہ چلی جائے ۔ میرے شہر کے پیاسے شہریوں کو تو خواجہ آصف تاہنوز پانی نہیں پلا سکے یہ تو معاملہ ہی ’’لاہور‘‘ کا ہوگا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عوامی مسائل کو قدرے کم کرنے کے لئے جو بنیادی منصوبہ بندی وزیر دفاع و آب و برق کو ملک بھر میں کرنی چاہئے تھی وہ کام شہباز شریف اپنے صوبے کے لئے کر رہے ہیں۔ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے مذکورہ بالا ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ ایک وہ کام بھی کردکھایا ہے۔ جو بنیادی طور پر پورے پاکستان کا سب سے بڑا گھمبیر مسئلہ تھا۔ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹر رائزیشن ایک ایسا مشکل اور نا ممکن مسئلہ تھا جسے آزادی وطن سے آج تک سمجھایا نہیں جاسکا اور اس مسئلے کی بدولت ہی ’’پٹواری کلچر‘‘ کی ابتداء ہوئی۔ اس تاریخی اقدام میں ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہاں تک کامیابی حاصل کرپائیں گے۔ اس بارے میں کچھ قبل از وقت ہوگا فرد برائے اراضی، رجسٹرڈ برائے حق داران زمین، خسرہ نمبر، کھیوٹ، اور اس طرح کے دیگر کاغذات برائے اراضی اور لینڈ رجسٹری کو مکمل طور پر سمجھنا صرف اور صرف پٹواری اور گرداور کا کام تصور ہوتا رہا ہے۔ ’’فرد برائے اراضی‘‘ کی حکومتی فیس کیا ہے۔ 80 برس گزرنے کے باوجود عام آدمی کو سمجھ میں نہیں اسکی، رجسٹری کیسے اور کتنے رپوں میں ہوتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق لینڈ ریکورڈ مینجمنٹ کے انفارمیشن سسٹم کوڈ کیا جاچکا ہے جو صوبے کی 143 تحصیلوں میں ’’اوپریشنل‘‘ کردیا گیا ہے۔ وہ فرد اراضی، جو پٹواری اپنے دفتر میں بچھائی ’’پھوڑی یا دری‘‘ میں بیٹھ کرہفتوں بھر اس لئے نہیں دیتا تھا کہ عام شخص اس ’’فرد‘‘ کی منہ مانگی رقم جسے وہ سرکاری فیس کہتا تھا دے نہیں پاتا تھا۔ اب وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے متعارف کروائے نئے ’’کمپیوٹر سسٹم‘‘ میں صرف 30 منٹ میں سرکاری فیس کے ہمراہ حاصل کیا جاسکے گا۔ اسی طرح اراضی اموار کو بذریعہ ’’گوگل میپنگ‘‘ پنجاب بھر میں پھیلایا جا رہا ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں بھی یہ نظام کامیابی سے چلنے لگا ہے۔ہم اوورسیز پاکستان کے لئے ’’اوورسیز کمیشن پنجاب‘‘ چونکہ متحرک ہو چکا ہے اس لئے ہم اپنے کمشنر بھٹی صاحب سے یہ توقع ضرور رکھیں گے کہ اپنا فوکس وہ اب صرف پٹواریوں، گرداوروں، قانون گوئووں، نائب تحصیلدار پر ہی نہ رکھیں، بلکہ سمندر پار پاکستانی مسائلوں کو ’’پٹوار کلچر‘‘ سے ہمیشہ کے لئے آزادی دلوانے کے لئے وہ ہر ضلع میں تعینات ڈی ڈی اوز، ڈی آر اوز اور سب رجسٹرروں کے ان منشیوں، باوئوں، اور ہیڈ کلرکوں پر بھی نظر رکھیں گے جو 500 روپے رشوت لینے کے عوض درخواست گزاری کی ’’رجسٹری درخواست‘‘ کو حساب کی بڑی میز تک پہنچانے کا سفر طے کرتے ہیں۔ ’’پلس‘‘ میں جس طرح ہر سپاہی، حوالدار، تھانیدار، انسپکٹر اورڈی ایس پی راشی نہیں ہوتے محکمہ مال میں بھی اس طرح ہر اہلکار اور افسر رشوت خور نہیں مسئلہ اگر ہے تو وہ صرف فرض شناسی اور نیک نیتی کے علاوہ خوف خدا کا فقدان ہے۔ اس لئے تو مجھے اپنے شہر کے ایک مرحوم شاعر کا یہ شعر بہت پسندہے۔ ؎ وہ دن بھی تھے بتوں کو خدا مانتے تھے ہم…؎
یہ دن بھی ہیں خدا کو خدا مانتے نہیں
جذبے سچے اور ایمان مضبوط ہو تو رشوت سمیت ہر جرم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔