قتل کے 11 مجرموں کو مختلف جیلوں میں پھانسی ، 2 کی سزا پر عملدرآمد روکدیاگیا
لاہور+ اسلام آباد (نامہ نگار + نیوز ایجنسیاں+ نمائندگان + نمائندہ نوائے وقت) لاہور، فیصل آباد سمیت کئی شہروں میں قتل کے 11مجرموں کو پھانسی دیدی گئی جبکہ اس موقع پر جیلوں کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ 2 مجرموں کی سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں 2، فیصل آباد میں 2، ملتان میں ایک، ساہیوال 1، گوجرانوالہ 1، ٹوبہ ٹیک سنگھ 1، مچھ 1، سرگودھا اور جہلم میں بھی ایک مجرم کو پھانسی دی گئی۔ پھانسی پانے والوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نور احمد بھی شامل تھا جس نے اپنے والد، بھائی اور بھتیجوں سمیت 6 افراد کو جائیداد کے تنازع پر قتل کر دیا تھا۔سینٹرل جیل فیصل آباد میں قتل کے 2 مجرموں آصف اور افتخار کو پھانسی دیدی گئی جبکہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بھی قتل کے 2 مجرموں شکیل اور شیر علی کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ڈسٹرکٹ جیل ساہیوال میں قتل کے مجرم اسحاق جب کہ سرگودھا ڈسٹرکٹ جیل میں بھی تہرے قتل کے مجرم امجد علی کو پھانسی دیدی گئی۔ امجد علی نے 2005ء میں 3 کمسن بچوں کو قتل کیا تھا۔ سینٹرل جیل گوجرانوالہ میں بھی قتل کے مجرم محمدنوازکو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قتل کے مجرم نور احمد اور مچھ میں مجرم ابراہیم کو پھانسی دیدی گئی۔ ساہیوال کی سنٹرل جیل میں قید قتل کے مجرم فیض محمد فیضی کی پھانسی مخالفین سے صلح پر موخر کردی گئی۔ ملتان میں سنٹرل جیل میں قید قتل کے مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد کرایا گیا۔ مجرم رانا فریاد نے اپنے کزن کو تلخ کلامی کے بعد قتل کردیا تھا۔ پھانسی دینے کے بعد مجرموں کی نعشیں ورثاء کے حوالے کردی گئیں۔ سنٹرل جیل فیصل آباد میں پھانسی کے مزید دو ملزموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ جیل انتظامیہ نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے بعد نعشیں ورثا کے حوالے کر دی گئی۔ افتخار نامی شخص نے 2002ء میں دو بھائیوں سمیت تین افراد کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ دوسرے مجرم آصف نے 1998ء میں معمولی جھگڑے پر نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ ساہیوال سے نامہ نگار کے مطابق سنٹرل جیل ساہیوال میں گزشتہ صبح اسحاق کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جبکہ دوسرے مجرم فیض عرف فیضی کی پھانسی عارضی طور پر معطل کر دی گئی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نامہ نگار کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قید سزائے موت کے قیدی نور احمد کو منگل کی صبح پھانسی دیدی گئی۔ چک نمبر 314 گ ب کے رہائشی ملزم نور احمد نے جائیداد کے تنازعہ پر 9 سال قبل اپنے حقیقی والد نواب علی ،بڑے بھائی محمد غفران اسکے چار کمسن بچوں دو بیٹوں عمران اور علی رضا ،دو بیٹیوں انیدہ اور فرحت کو پسٹل سے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، سیالکوٹ سے نامہ نگار کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں آج 27مئی کو ایک مجرم کو ہونے والی پھانسی روک دی گئی۔ آئی این پی کے مطابق بہاولنگر سمیت ملک بھر کی مختلف جیلوں میں رواں ماہ کے آخر تک سزائے موت کے 25 سے زائد قیدیوں کو 31 مئی تک تختہ دار پر لٹکا دیا جائیگا۔ جیل ذرائع کے مطابق گزشتہ روز ملک کی مختلف جیلوں میں 10 سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دیدی گئی۔ ادھر کوٹ لکھپت جیل میں گزشتہ روز قتل کے دو مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام پورہ کے علاقہ میں محمد شریل عرف عبدالحمید نے 1997ء میں ایک شخص کو قتل کیا تھا جبکہ شیرعرف نواب دین نے فیصل ٹائون میں ایک شخص کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ دونوں مجرموں کی جانب سے صدر پاکستان کو رقم کی اپیل کی گئی تھی جس کے مسترد ہونے کے بعد بلیک وارنٹ جاری کئے گئے۔ پھانسی کے وقت جیل کے اطراف میں سخت سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ گوجرانوالہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق سنٹرل جیل میں مقدمہ قتل کے مجرم کو پھانسی دیدی گئی۔ مجرم محمد نواز کو جوڈیشل مجسٹریٹ نور محمد دھوتڑ کی نگرانی میں پھانسی دیدی گئی، مجرم محمد نواز نے 1999ء میں بھابھی پرتشدد کرنے کی رنجش پر محنت کش محمد مالک کے پچیس سالہ بیٹے احسان الہی کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کے تحت وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ کی جانب سے دائر ملک سے سزائے موت کے خاتمے کیلئے درخواست پر اپنا فیصلہ جاری کر تے ہوئے پھانسی کے خاتمے کی استدعا کو مسترد کردیا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور جو قانونی نکات اپنے دلائل کے حق میں اس حوالے سے اٹھائے گئے تھے وہ سزائے موت کے خاتمے کیلئے قانونی جواز فراہم نہیں کرتے۔ نیشن رپورٹ کے مطابق دسمبر سے اب تک 128 افراد کو پھانسی دی گئی۔ حیدرآباد سے نامہ نگار کے مطابق 1998ء میں پی آئی اے کے جہاز کو ہائی جیک کرنے والے تین ہائی جیکرز کو کل جمعرات کو پھانسی دی جائے گی۔ شہسوار، صابر رند اور شبر رند نے 24 مئی 1998ء کو تربت سے کراچی جانے والے طیارے کو ہائی جیک کیا تھا جس میںوہ مسافروں کے بھیس میں سوار تھے۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 544 تربت سے براستہ گوادر کراچی جارہی تھی فوکر طیارہ جونہی گوادر سے اڑا تو اسے ہائی جیک کرلیا گیا۔ ہائی جیکرز نے پائلٹ پر زور ڈالا کہ وہ طیارے کو کسی بھی جگہ سے بھارت کی حدود میں لے جائے تاہم طیارے اغوا کی اطلاع ملتے ہی پاکستان ایئرفورس کے ایف سولہ لڑاکا طیاروں نے پرواز کا راستہ روکا اور اسے حیدرآباد ایئرپورٹ پر اترنے پر مجبور کیا۔