’’چلے کارتوس‘‘ مشرف کی باسی کڑھی میں ابال
جنرل (ر) پرویز مشرف نے چند سال قبل سیاسی لبادہ اوڑھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور قائداعظم کا نام، اصول، فلسفہ، سیاسی جدوجہد کا طریق کار اپنانے کا اعلان کیا تھا جس پر محترم مجید نظامی نے بہت سخت ردعمل کا ادارتی صفحہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشرف کو پاکستان مسلم لیگ کا نام استعمال کرنے سے قوم کو ’’معاف‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مجید نظامی صاحب کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ ایک آئین شکن جرنیل جو غداری کے قانون کی زد میں آتا ہو وہ مسلم لیگ کی جمہوری روایات کی امین جماعت کے منشور، فلسفے اور جرنیلوں کے خلاف عملی جدوجہد کی سیاسی روایت کے تناظر میں مسلم لیگ کا نام استعمال کر کے قائداعظم کی روح کو بے چین کرنے کا سبب ہو گا لہٰذا وہ کوئی اور نام رکھ لیں لیکن مشرف نے میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (نواز) کے مقابلے کیلئے آل پاکستان مسلم لیگ بنا ڈالی جسے سیاسی میدان میں ضمانتیں ضبط کرانے کے علاوہ ملک بھر سے شاید اسمبلی کی ایک نشست ملی، وہ بھی مقامی بڑوں کی مہربانی سے!! نظامی صاحب نے میرا کالم اس وقت ادارتی صفحہ پر شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’چلے کارتوس کی سیاسی پیش قدمی‘‘۔ تقریباً چھ دن قبل باسی کڑھی میں پھر ابال چڑھا ہے، مشرف نے قائداعظم مسلم لیگ کا استعمال کرنیوالے اپنے پرانے مارشل لاء کے حمایتی اور گودی میں کھیلنے والے چودھری شجاعت حسین اور فنکشنل لیگ کے پیر صاحب پگاڑا سے مسلم لیگیوں کے اتحاد کے بارے میٹنگ کی ہے۔ کچھ معمولی مسلم لیگی کاغذی گروپوں کو بھی دعوت دی جو جمہوری سوچ اور نظریات کی بنیاد پر شاید اس ’’اتحاد‘‘ میں شامل ہونے کو تیار نہ تھے اور نہ آئے۔ مشرف، چودھری شجاعت گروپ اور پگاڑا گروپ سندھی ناراض نون لیگی اور دیگر مشرف کی باقیات سے مل کر دیہی سندھ میں آئندہ انتخابات کیلئے منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید وہ پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات بھانپ کر کچھ زرداری مخالف ٹولے سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں گے۔ اس طرح وہ سندھ کی نمائندگی کیلئے اپنا گروپ سندھ اسمبلی کے اندر مضبوط کرنا چاہیں گے اور اگر ’’اسلام آباد یا راولپنڈی‘‘ سے نگران حکومت کے دوران سپورٹ اور اشارہ ملا تو شاید ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے پر بھی تیار ہو جائیں جو بہت لوگوں کی ’’خواہش‘‘ ہے۔ بہرحال یہ وقت بتائے گا۔ مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کا کوئی وجود نہیں۔ چترال میں بھی انتخاب میں ان کا امیدوار زیادہ ووٹ نہیں لے سکا! کہیں کہیں ملک کے کونے میں مقامی مضبوط سیاسی خانوادوں کے اوپر مشرف کے احسانات کی بنیاد پر ’’محدود حمایت‘‘ ملی۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشرف ایک چیف آف آرمی سٹاف، بہت شان و شوکت والے تنہا پاکستان کے ’’بادشاہ‘‘ کا پروٹوکول انجوائے کرنے کے بعد قومی اسمبلی یا سینٹ کا محض ایک رکن بننا پسند کرینگے؟ تقریباً 1500 اراکین اسمبلی و سینٹ کی اکثریت دس سال مشرف کے بوٹ پالش کرتی رہی جس میں ’’چودھریوں‘‘ کا کردار نمایاں ہے۔ اسی بنیاد پر چودھری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تیزرفتاری اور نمایاں ترین ترقی و کارکردگی کو بھی انتخابات میں ووٹروں نے مسترد کر کے ثابت کر دیا کہ پنجاب کی ترقی اور کسانوں کے مفادات کا تحفظ اچھا تھا لیکن جرنیلوں کے ’’ٹوڈی‘‘ بن کر آئین شکنوں کو وردی میں 20 مرتبہ منتخب کرانے کے چاپلوس مکھن بازی کے نعرے غیرت مند جمہوری پنجابیوں کو انتہائی برے محسوس ہوئے اور پرویز الٰہی گروپ کا 80 فیصد سے زائد پنجاب میں صفایا ہو گیا۔ سبق پھر ’’چودھری‘‘ نہیں سیکھتے!! کیوں؟ میاں نواز شریف کے دل میں بھی بغض، کینہ، اناپرستی کہیں نہ کہیں ہے ورنہ وہ محترم مجید نظامی کی دو مرتبہ مسلم لیگی اتحاد کی فرمائشیں نہ مسترد کرتے۔ چودھری گروپ اور مشرف گروپ بھی اسی مرض کا شکار ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ نواز لیگ کے اندر بہت طاقتور اور اقتدار کا کیک کھانے والے ’’نورتن‘‘ گروپ کی مخالفت ہے جو زمینی حقائق میں چودھری گروپ سے اتحاد کے نتیجے میں ٹکٹوں کی تقسیم کے فارمولے اور بڑے قومی عہدوں کی تقسیم (حکمرانی) پر چودھری گروپ کو حکمران نہیں دیکھنا چاہتے مثلاً سپیکر قومی اسمبلی، گورنر پنجاب، چیئرمین سینٹ یا ڈپٹی وزیراعظم، وزیر داخلہ یا وزیر دفاع… قائداعظم کی مسلم لیگ تو کب کی دفن ہو چکی، یہ آجکل کے ’’ٹوپی ڈرامے سیاسی بونے‘‘ قائداعظم کا نام کیوں بدنام کرتے ہیں؟ مشرف کو قائداعظم کی مسلم لیگ کا نام استعمال کرنے سے توبہ کرنی چاہئے۔ مشرف کو اپنی جماعت کا نام ’’طبلہ ڈسکو پارٹی‘‘ رکھنا چاہئے کہ وہ طبلہ اور ہارمونیم اچھا بجاتے ہیں۔ اگر یہ ناپسند ہو تو ’’پہلے پاکستان پارٹی‘‘ رکھ لیں، مسلم لیگ اور مسلم لیگیوں کے دل پر ’’وار‘‘ نہ کریں۔ پاکستان آئین شکن مسلم لیگیوں نے نہیں بنایا تھا۔ مشرف توبہ کریں توبہ!