پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہو گا؟
ہماری کالم نگار طیبہ ضیا کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا اور مجھے یہ فکر مندی ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہو گا۔ باقی تینوں صوبے کسی قطار شمار میں نہیں ہیں۔ سندھ کے لئے پھر کوئی بوڑھا تھکا ہارا اپنا پیارا ”صدر“ زرداری ڈھونڈھ لیں گے۔ ورنہ قائم علی شاہ کو اللہ سلامت رکھے اور ان کی عمردراز کرے۔ بلوچستان کے لئے جسے وزیراعلیٰ بنا دیں وہی وفاق کے خلاف ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتصادی راہداری کے لئے مجھے کچھ بھی وفاق یعنی نواز شریف نے نہیں بتایا حتیٰ کہ شہباز شریف نے بھی کچھ نہیں بتایا۔ خیبر پختون خواہ کے لئے ہر پارٹی کے لیڈر کو سب سے بے کار آدمی مل جاتا ہے۔ اسفند یار ولی نے امیر حیدر ہوتی مولانا فضل الرحمن نے اکرم درانی عمران خان نے پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ بنایا۔ اصل میں تینوں ایک ہیں۔ بے کار اور افسر بکار خاص یعنی او ایس ڈی سٹیٹس ہے اور کام کرتے نہیں۔
تو بات صرف پنجاب کی ہے۔ یوں بھی تینوں صوبے مل کر بھی پنجاب جیسا اور پنجاب جتنا نہیں بن سکتے اور نہ ان کو بنایا جاتا ہے۔ یعنی بننے ہی نہیں دیا جاتا تو میں پنجاب کے لئے فکرمند ہوں۔ پنجاب کو پاکستان سمجھا جانا نواز شریف اور ”صدر“ زرداری کی سیاسی ملی بھگت ہے۔ گٹھ جوڑ ہے یہ بھی طے ہے کہ ہم سندھ میں مداخلت نہیں کریں گے اور تم پنجاب میں کوئی دلچسپی نہیں لو گے۔ پنجاب اور سندھ کے لئے اب بہت سی باتیں ہو رہی ہیں جو ابھی ان کہی ہیں۔ صوبہ سرحد یعنی خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے بعد ان سے بڑھ کر کراچی اور سندھ کا نام لیا جا رہا ہے اور اب پنجاب بھی اسی قطار میں ہے پاکستان کے لئے دردمندی والے زارو قطار ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بات تو یونہی میرے تڑپتے دل میں آ گئی جس میں پاکستان زندہ باد لکھا ہوا ہے۔ جن تین لوگوں کا نام وزیراعظم کے طور پر لیا گیا ہے ان میں شہباز شریف بھی ہیں۔ جتنی دیر کا ان کا تجربہ وزیراعلیٰ پنجاب ہونے کا ہے۔ کسی کا نہیں اور نہ ہو گا۔ نواز شریف بھی کم نہیں۔ وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں کسی اور کے لئے ایسا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اب تو دونوں بھائیوں کے بغیر پاکستان لاوارث ہو جائے گا؟ لیکن ایک امید ہے کہ حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے تقریباً تیار کر لئے گئے ہیں۔ وہ بالکل اپنے والد صاحب کی طرح ہیں۔ سب کچھ ویسے کا ویسا؟ شاید دونوں بھائیوں کی طرح دونوں کزنوں میں بھی کوئی نامعلوم معاہدہ ہے۔ مریم نواز نے کبھی پنجاب کے معاملات میں دخل نہیں دیا اور حمزہ شہباز نے وفاق کے حوالے سے کوئی بیان تک کبھی نہیں دیا۔ جبکہ وہ ممبر قومی اسمبلی ہیں اور پنجاب حکومت کا باقاعدہ حصہ ہیں جبکہ ان کے لئے کسی عہدے اور ذمہ داری کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ وہ ہر کہیں ہیں مگر کہیں نہیں ہیں۔ میری ایک ملاقات ان سے 90 مال پر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے بھی غیر رسمی ملاقاتیں ان سے ہوئیں۔ وہ تو مجھے اچھے خاصے شریف آدمی لگے یہ وہی شریف ہے جو شریف فیملی کا اجتماعی کردار سے وہ پورے حکمران ہیں۔ مجھے شورش کاشمیری کا یہ جملہ یاد آیا۔ حسن حکمرانی میں ہو یا رانی میں ہو حسن ہی ہوتا ہے۔
مریم نواز کو بھی وزیراعظم کے طور پر کالم میں پیش کیا گیا ہے۔ لوگ جو بھی کہتے رہیں مگر میں اس خاتون کے لئے دل میں عزت رکھتا ہوں اگر بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی خاتون کے وزیراعظم ہونے کی بات ہو تو میں بے ساختہ مریم نواز کا نام لوں گا۔ شریف برادران سے دوریاں ہیں جنہیں قربتوں میں بدلنے کا مجھے نہ شوق ہے نہ خواہش ہے۔ نواز شریف کی نوازش ہائے بے جا اور شہباز شریف کی کسی کا کام نہ کرنے کی شہرت سے مجھے کوئی غرض نہیں۔ برادر شعیب بن عزیز بتاتے ہیں کہ نجی محفلوں میں شہباز میاں بہت کھلے ڈھلے آدمی ہیں۔ بہت لطیفے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ نواز شریف اس حوالے سے بہت آگے ہیں۔ وہ کسی محفل کو بھی اپنی محفل بنا سکتے ہیں۔ وہ جلسہ عام میں تقریر کے دوران بھی لطیفے چلا دیتے ہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ محاورہ عرض ہے۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ خدا نے بڑی مہربانی کی ہوئی ہے وہ بھی تو اللہ میاں ہے۔ دونوں بھائیوں کے فون بھی آتے تھے جب وہ جلاوطنی میں تھے۔ مگر ہموطنی اور جلا وطنی کا امتزاج نہ بن سکا تو ان کا مزاج بھی نہ بدل سکا۔ اب ان سے رابطہ نہیں ہے۔ رابطے کے لئے جلاوطنی درکار ہے اور....؟
کلثوم نواز کالج فیلو ہیں۔ تحریک جمہوریت میں ان کے ساتھ تھا۔ ان کا یہ فون مجھے یاد ہے کہ نہ میں سیاستدان کے طور پر بات کر رہی ہوں نہ تمہیں کالم نگار سمجھتی ہوں۔ ہم اورنٹیل کالج میں اکٹھے تھے اور یہ رشتہ سب سے بڑھ کر ہے؟ مگر ان کی تحریک جمہوریت تحریک جلاوطنی بن گئی ان سے بھی رابطہ نہیں رہا۔ رابطہ مریم نواز سے بھی نہیں ہے۔ کوئی ملاقات نہیں مگر میری رائے ان کے لئے اچھی ہے۔ اللہ ان کی سوچ کو پاکستان کے لئے اچھا رکھے۔
وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کا نام بھی ہے اور مریم نواز کا بھی ہے اور یہ ایک بجھارت ہے۔ دونوں بھائیوں کا ایک دوسرے سے بہت اچھا تعلق ہے اور یہ دونوں کے لئے ضروری بھی ہے۔ ایسی مثال صرف چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کی ہے۔ ان کی کریڈیبلٹی اور کریڈٹ زیادہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کزن ہیں۔ یہ ایثار صرف اعتبار سے پیدا ہوتا ہے اور یہی پیار بنتا ہے۔ شریف برادران اور چودھری برادران میں اب قدر مشترک صرف یہی ہے۔ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی مگر شریف برادران سیاسی انا کو انا سے بھی زیادہ سنبھال کے رکھتے ہیں۔
مریم نواز اگر وزیراعظم ہو تو وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے نواز شریف کی رائے مقدم ہو گی۔ وزیر اطلاعات تو یقیناً ماروی میمن ہو گی۔ نواز شریف صدر مملکت ہوں گے کہ یہ ملک ان کی ملکیت ہے۔ مگر وہ صدر ممنون حسین کی طرح نہیں ہوں گے اور نہ ”صدر“ زرداری کی طرح ہونگے۔
ایک اور نام وزیراعظم کے لئے طیبہ ضیا نے لیا ہے۔ عمران خان۔ اس کے لئے امید بھی بہت ہے اور خطرہ بھی بہت ہے میں اگرچہ عمران کی پالیسیوں اور تبدیلیوں کے خلاف بات کرتا رہتا ہوں۔ تنقید و تعریف دونوں ضروری ہیں۔ جب سے چودھری سرور تحریک انصاف میں گئے ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ عمران ایک دفعہ وزیراعظم بنیں گے تو پنجاب کا وزیراعلیٰ یقینی طور پر چودھری سرور ہونگے۔
پہلے میں نے چودھری سرور کے عمران خان کو جائن کرنے کے لئے ایک ناگواری سی محسوس کی تھی مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ اگر وہ شاہ محمود قریشی کی سازشوں اور حاسدانہ ریشہ دوانیوں سے بچ گئے تو عمران خان کے لئے ان سے زیادہ فائدہ مند کوئی نہیں ہے وہ برطانوی دارالعوام کے ممبر پارلیمنٹ رہے ہیں۔ ایک دفعہ ان کا بیٹا بھی ممبر پارلیمنٹ رہا ہے۔ وہ برطانوی سیاست و جمہوریت کا 1/4 فیصد بھی پاکستان میں رائج کر سکیں تو یہ خوش قسمتی ہو گی وہ اپنے مزاج اور شخصیت اور کردار کے حوالے سے عوام دوست بہت دانشمند اور دلیر انسان ہیں۔ عمران نے بہت کم اچھے فیصلے کئے ہیں جن میں سے ایک چودھری سرور کو پارٹی کا آرگنائزر بنانے کا ہے۔ وہ عمران کو بھی راہ راست پر لانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ وہ فلاحی اور تعمیری معاملات عام لوگوں کو ریلیف دینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔