پیپلز پارٹی ذوالفقار مرزا کے سامنے بے بس کیوں
شہزاد چغتائی
پیپلز پارٹی اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے درمیان کشمکش کے بعد کراچی آپریشن پس منظر میں چلا گیا اورصحافیوں پر تشدد کرنے والے نقاب پوش پولیس کمانڈوز توجہ کا مرکز بن گئے۔ ہائی کورٹ نے ذوالفقار مرزا کی پیشی کے موقع پر تشدد کا سخت نوٹس لے لیا اور پولیس افسران سے بازپرس کرتے ہوئے کہاکہ عدالت پر حملہ برداشت نہیں کیا جائیگا۔ پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ذوالفقار مرزا کے ساتھ آنے والے دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ تھا جس پر عدالت نے کہا کہ تو پھر آپ نے دہشت گردوں پر کتنی گولیاں چلائیں۔ عدالت نے ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی کو کام کرنے سے روک دیا۔ اس دوران نیٹو کے چوری شدہ اسلحہ کی بازگشت پھر سنائی دے رہی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے پاس سے نیٹو کا ممنوعہ اسلحہ برآمد ہوا ہے۔11ما رچ کو نائن زیرو پر چھاپہ کے وقت رینجرز نے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اب کراچی کے پولیس چیف نے یہ کہانی پھر دہرائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نیٹو کے اسلحہ کی برآمدگی کو افسانہ قرار دیا تھا لیکن ذوالفقار مرزا نے اعتراف کیا کہ ان کے جانثاروں کے پاس پولیس سے بہتر اورجدید اسلحہ موجود ہے۔ سندھ میں نئے وزیرداخلہ کے حلف اٹھانے کے 48 گھنٹے کے بعد حکومت اور ذوالفقار مرزا کے درمیان محاذ آرائی بڑھ گئی تھی اور موجودہ وزیر داخلہ اورسابق وزیر داخلہ آمنے سامنے آگئے تھے۔ سیال کی تقرری سے ایک روز قبل ذوالفقار مرزا نے ٹی وی سکرین پر سہیل انورسیال پر بے ہودہ الزامات عائد کئے تھے، دوسرے روز پیپلز پارٹی نے سہیل انور سیال کو ہی وزیرداخلہ بنادیا جس پر مرزا صاحب مزید چراغ پا ہو گئے۔ پولیس کئی دن کی کوششوں کے باوجود ذوالفقار مرزا کو گرفتارکرنے میں ناکام رہی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پولیس افسران کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنا چاہتے تھے۔ اس خطرناک رویہ کی میر مرتضیٰ بھٹو بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں جبکہ پولیس اس سانحہ کے بعد محتاط ہو گئی ہے۔ دوسری جا نب ذوالفقار مرزا کہتے ہیں پولیس ان کو قتل کرنا چاہتی ہے، وزیرداخلہ سیال کو جیل خانہ جات کا محکمہ اس لئے دیا گیا کہ جیل میں مرحوم ڈان شعیب خان کی طرح ان کو زہر کا انجکشن لگا کر مار دیا جائے اور ان کی موت کو طبعی قرار دیدیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا اورپیپلز پارٹی کے تعلقات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ واپسی کا راستہ نہیں بچا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے رکن صوبائی ا سمبلی نادر مگسی اور مشترکہ دوستوں کے ذریعہ مصالحت کا پیغام دیا لیکن مرزا صاحب ہتھے سے اکھڑے ہوئے ہیں، ان کی بیگم فہمیدہ مرزا جوکہ قومی اسمبلی کی اسپیکررہ چکی ہیں اوربہت سنجیدہ اوربردبار خاتون ہیں‘ ذوالفقار مرزا سے زیادہ ناراض دکھائی دیتی ہیں، پہلے مرزا صاحب عدالتوں میں اکیلے آتے تھے اب فہمیدہ مرزا بھی ساتھ آتی ہیں، وہ خاوند کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اس تنازعہ میں پیپلز پارٹی کی پوری قیادت خاموش دکھائی دیتی ہے، ایک دو وزیر کھل کر دفاع کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مصالحتی کردار ادا کرتے تو یہ نوبت نہیں آتی، ذوالفقار مرزا درد سر بنے ہوئے ہیں اور پارٹی کو بہت ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ اس سے قبل سندھ میں جس نے پیپلز پارٹی کو آنکھیں دکھائی ہیں اس کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا لیکن ایک ذوالفقار مرزا قابو میں نہیں آ رہے۔ پیپلز پارٹی نے جس قدر اصلاح احوال کی کوششیں کی ہے، معاملات بگڑے ہیں اور اب عدلیہ بھی حکمرانوں سے ناراض ہوگئی ہے۔ پولیس چیف کا موقف ہے کہ سندھ ہائیکورٹ سے 11دہشت گردوں کو پکڑ کر ممکنہ خونریزی کے منصوبہ کو ناکام بنایا تھا، ملزمان کو پولیس کمانڈوز نے مہارت کے ساتھ پکڑ لیا ورنہ نہ جانے کیا ہوجاتا، ملزمان کے پاس نیٹو کا چوری شدہ اسلحہ بھی تھا۔ عدالت نے آئی جی سے یہ سوال بھی کیا کہ نقاب پوش پولیس والوں نے عدالت کا گھیرائو اور تشدد کیوں کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ذوالفقار مرزا کے ساتھی اسلحہ لے کر عدالت میں گھسے تھے جس پر عدالت نے کہا ذوالفقار مرزا کے ساتھ آنے والے دہشت گرد تھے تو انہوں نے کتنی گولیاں چلائیں۔ دریں اثناء صدر ممنون حسین کے صاحبزادے سلمان حسین قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، ان کے قافلے پربم حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنے ڈیری فارم سے کراچی آرہے تھے، اس دوران آرسی ڈی ہائی وے پر جمعہ خان ہوٹل کے سامنے کھڑی ہوئی موٹرسائیکل میں نصب بم پھٹ گیا جس کے نتیجے میں سلمان حسین تو معجزانہ طورپر بچ گئے لیکن تین افراد ہلاک اور14 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سلمان حسین کے گارڈ شامل ہیں۔ ملزمان نے ریموٹ کنٹرول اس وقت استعمال کیا جب سلمان حسین کی گاڑی نکل چکی تھی۔ ملزمان نے پولیس موبائل کو نشانہ بنایا۔ حب کے قاتلانہ حملے کو صدر کیلئے سخت پیغام بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ سلمان حسین کا قافلہ ضرور تھا لیکن وہ سلمان حسین کی جان لینا نہیں چاہتے تھے۔ جب سے ممنون حسین صدر بنے ہیں ان کے خاندان کے ساتھ کئی افسوسناک واقعات ہو چکے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی نے ذمہ داری قبول کر لی۔ صدر ممنون حسین کو جب اطلاع دی گئی تو اس وقت کچھ مسلم لیگی رہنما بھی موجود تھے۔ صدر کو بتایا گیا کہ سلمان حسین محفوظ ہیں جس پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر خواب گاہ میں چلے گئے۔ کراچی کیلئے شہریوں کیلئے سب سے بڑی خوشخبری یہ تھی کہ ایم کیو ایم کے وفد نے کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قسم کی ملاقات مدتوں بعد ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں اور باہر کراچی کے شہری معاملات کا تذکرہ تو کرتی ہے لیکن حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔