بیلٹ پیپرز کی تعداد کے تعین میں میرا کردار نہیں ، یہ ریٹرننگ افسروں نے کیا: سابق سیکرٹری الیکشن کمشن: 21819 پولنگ سٹیشنز کے فارم میں 15 کی نقول موصول
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمشن کا اجلاس ہوا۔ تین رکنی کمشن اجلاس کی سربراہی چیف جسٹس ناصر الملک نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حفیظ پیرزادہ اب کن گواہوں کو بلانا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے کہ کہ میرے گواہوں میں نجم سیٹھی اور حامد میر ہیں۔ ہو سکتا ہے دونوں گواہوں پر جرح کی ضرورت نہ رہے۔ پہلے مجھے کمشن میں پیش کیا گیا تمام ریکارڈ دیکھنا ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ق لیگ نے گواہوں کی لمبی فہرست دی ہے لیکن ق لیگ کے وکیل موجود نہیں۔ مسلم لیگ ن کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہمارا تو ایک ہی گواہ ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کو بطور گواہ بلایا جائے۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ جن گواہوں کو بلانا ہے آج بتا دوں گا۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد کمشن نے کمشن کو بتایا کہ وہ 2009ء سے 2014ء تک 5 سال تک سیکرٹری الیکشن کمشن رہے۔ انتخابات 2013ء کے دوران انکی سیکرٹری کی ذمہ داری تھی۔ 2012ء میں استعفٰی دیا مگر قبول نہیں کیا گیا۔ ریٹائرمنٹ سے قبل ایل پی آر لینا چاہی، مگر نہیں دی گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر الیکشن کمشن کیلئے کام کرتا رہا ہوں۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا آپ کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ اشتیاق احمد نے بتایا کہ ای سی پی نے وزیراعظم کی منظوری کے بعد میری ملازمت میں 2 سال کی توسیع کی۔ میں 2011ء میں ریٹائر ہو گیا تھا۔ درست ہے میں استعفٰی دے کر چلا گیا تھا مگر چیف الیکشن کمشنر نے منظور نہیں کیا تھا۔ ای سی پی نے ایڈیشنل سیکرٹری کا چارج دیا۔ جولائی 2012ء میں وزیراعظم نے استعفٰی مسترد کر کے دوبارہ ڈیوٹی دینے کا حکم دیا۔ الیکشن کمشن کا اختیار آئین کے اندر موجود ہے۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق جو اختیارات آپ کو نہیں دئیے گئے وہ آپ استعمال نہیں کر سکتے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انتظامی عہدے پر فائز شخص آئینی اختیارات کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟ اشتیاق احمد نے کہا کہ جو اختیار آئین دیتا ہے الیکشن کمشن اسی پر عمل کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ یہ درست ہے کہ چھاپی گئی بک میں 100 بیلٹ پیپرز تھے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے میٹنگ میں حتمی فیصلہ کیا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ میٹنگ کس تاریخ کو ہوئی۔ میٹنگ میں الیکشن کمشن نے تخمینہ لگایا کہ 18 کروڑ بیلٹ پیپرز کی ضرورت ہو گی۔ قانون کے مطابق شیڈول جاری ہونے کے بعد ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ 23 مارچ 2013ء کو انتخابات کیلئے حتمی شیڈول جاری کیا گیا۔ انتخابی فہرستوں سے متعلق پہلی میٹنگ ستمبر 2012ء میں ہوئی۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی 15 دنوں میں مکمل ہوئی؟ اشتیاق احمد نے بتایا کہ ایکشن پلان کے مطابق حتمی ا نتخابی فہرستیں جاری کرنے کے بعد 21 دن میں بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ جو نکات اٹھا رہے ہیں یہ جرح نہیں بلکہ دلائل کا حصہ ہے۔اشتیاق احمد نے عام انتخابات میں بیلٹ پیپرز کی تعداد کے تعین سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی تعداد کے تعین میں میرا کوئی کردار نہیں تھا، بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین ریٹرننگ افسروں نے کیا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے سابق سیکرٹری اشتیاق احمد پر جرح کی۔ اشتیاق احمد نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے فارم 15 الیکشن کمشن کو نہیں بھیجا۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ سیکشن 44 کے تحت انتخابات کے بعد تمام مواد الیکشن کمشن کو بھیجا جاتا ہے۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ تعداد ہم نے مختلف پرنٹنگ پریس کو بھیج دی۔ ریٹرننگ افسروں نے تعین دئیے گئے اختیارات کے تحت کیا۔ الیکشن کمشن نے تعداد بڑھانے کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا۔ الیکشن کمشن نے مقناطیسی سیاہی کے استعمال کا فیصلہ نادرا کے موشرے سے کیا تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈی جی نادرا نے مقناطیسی سیاہی کے نمونے کی منظوری دی تھی۔ بیلٹ پیپرزکی تعداد کے تعین میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرزکی تعداد بڑھانے کے بارے میں طریقہ کارواضح نہیں کیاتھا، یہ تعین آراوزنے خودکیاتھا، مقناطیسی سیاہی کے استعمال کافیصلہ نادراسے مشاورت کے بعدکیا،مقناطیسی سیاہی کے نمونے نادرا کو بھیجے ،عام انتخابات کے دوران چیئرمین نادراکے ساتھ کئی مشترکہ پریس کانفرنسزکیں۔
اسلام آباد (آئی این پی) 2013ء میں ہونیوالے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمشن کی جانب سے فارم 15 پیش کرنے کے حکم کے بعد الیکشن کمشن میں فارم 15 کی کاپیاں موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں، پنجاب سے 40 ہزار میں سے 21 ہزار فارمز کی کاپیاں موصول ہوئیں۔ خیبرپی کے سے کوئی ایک فارم 15 کی کاپی کمشن کو موصول نہیں ہوئی۔ الیکشن کمشن کے ذرائع کے مطابق کمشن کو پیش کرنے کیلئے زیادہ تر ریکارڈ موجود ہی نہیں کیونکہ ریٹرننگ افسروں نے الیکشن کمشن کو زیادہ تر حلقوں سے صرف فارم بھیجے ہیں جو پورے حلقہ کے انتخابی نتائج پر مشتمل ہوتا ہے ۔ الیکشن کمشن کے ذرائع کے مطابق فارم 14 ، 15 اور 16 کا بیشتر ریکارڈ کمشن کے صدر دفتر میں موجود ہی نہیں ہے ۔ قوانین کے مطابق یہ تینوں فارم الیکشن کمشن میں موجود ہونے چاہئیں ، ان فارم میں پولنگ سٹیشنز کے نتائج ، بیلٹ پیپرز کی تفصیلات اور دیگر انتخابات اعداد و شمار موجود ہوتے ہیں ۔ ووٹوں کے تھیلوں میں ان فارم کی موجودگی کی ذمہ داری ریٹرننگ افسروں پر عائد ہوتی ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اگر تھیلوں سے یہ فارمز نہیں ملتے تو الیکشن کمشن ریٹرننگ افسروں کو دو سال قید اور جرمانے کی سزا سنا سکتا ہے۔ کمشن کے ذرائع کے مطابق اب تک پنجاب کے 40 ہزار میں سے 21 ہزار ، سندھ کے 14 ہزار میں سے 263 ، فاٹا کے 11007 میں سے 88 جبکہ خیبرپی کے سے کوئی فارم 15 موصول نہیں ہوا ۔ کمشن کی جانب سے ریٹرننگ افسروں کو فارم 15 جلد از جلد بھیجنے کی ہدایات کی ہیں۔ الیکشن کمشن کو اب تک 21 ہزار 819 پولنگ سٹیشنز کے فارم 15 کا ریکارڈ موصول ہوئے ہیں۔ الیکشن کمشن کو کل 69 ہزار 630 پولنگ سٹیشنز میں 21 ہزار 819 کے فارم 15 کا ریکارڈ موصول ہو گئے ہیں جن میں سے فاٹا کے 1107 پولنگ سٹیشنزمیں سے 88 جبکہ پنجاب کے 40004 پولنگ سٹیشنز میں سے 21468 فارم 15 کی نقول موصول ہوئی ہیں۔ الیکشن کمشن کی تمام آر اوز کو فارم 15 کا ریکارڈ جلد از جلد مرتب کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔