• news

پارلیمنٹ کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ بدلنے کا اختیار نہیں ترمیم کر سکتی ہے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کے قےام، 18,سے 21ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے قرار دےا حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، مساوات رواداری، آزادی بنےادی حقوق آئین کاحصہ ہیں ،نےا نظام صرف خون بہانے سے ہی نہیں آسکتا ، آئین میں کچھ معاملات میں جو حقوق اقلیتوں کو حاصل ہیں وہ مسلمانوں کو بھی نہیں ،پارلیمنٹ کو ترامیم کا اختےار ہے مگر بنےادی ڈحانچہ تبدیل کرنے کا نہیں، پارلیمنٹ بنےادی انسانی حقوق ختم نہیں کرسکتی ۔دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آرٹیکل 51 میں اقلیتی نشستوں کی بات کی گئی ہے۔ جنرل نشستوں میں خصوصی نشستوں میں کوئی فرق نہیں۔ جنرل سیٹوں پر مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں ۔دوسری جانب اضافی فائدہ دیا گیا ہے اقلیتوں کو الگ سے بھی نمائندگی دی گئی ہے یہ فائدہ صرف غیر مسلموں کو دیا گیا ہے مسلمانوں کو نہیں دیا گیا ۔ قانون بنانے والوں نے اقلیتوں کو ترجیح دی ہے ، جسٹس جواویس خواجہ نے کہا ہے اقلیتی برادری کے نمائندے وو نہیں ہوتے جو سیاسی جماعتوں کی آشیر باد حاصل کر کے پارلیمنٹ آتے ہیں عام آدمی تو پارلیمنٹ میں منتخب ہوکر آہی نہیں سکتا یہ ارب پتیوں کا کام ہے۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی تو شمشاد مانگٹ کے وکیل حشمت حبیب نے موقف اختےار کےا 18 ویں ترمیم کے دیباچے میں بھی بنیادی ڈھانچے کی بات کر دی گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو محفو ظ رکھا جائے گا ۔انہوں نے کہا آئین لوگوں کا بنا ہوا ہے اس کو لوگ ہی تبدیل کر سکتے ہیں جس کو اختےار ہے وہ کالے کو سفید کر سکتا ہے، قرار داد مقاصد کے مطابق عوامی نمائندے جمہوریت کو اللہ تعالیٰ کا تفویض کردہ اختیار سمجھ کر استعمال کریں گے۔ اقلیتوں کو مذہبی آزادی دی گئی۔ وفاق کی بھی بات کی گئی‘ بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی۔ مساوات‘ سیاسی انصاف‘ آزادی اظہار رائے‘ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ‘ نظام عدلم کی آزادی سمیت حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور اس کمیٹی نے اس کو بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دیا تھا،ہماری پارلیمنٹ نے آئین 102ٓرٹیکلز کو تبدیل کردےا گےا۔ حشمت حبیب نے کہا معاملات کو جس طرح سے ظاہر کیا گیا ہے ویسے نہیں ہیں آمروں کے بنائے ہوئے بعض آرٹیکلز کو بھی شامل رکھا گیاسوال ہے کےا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کا اختےار ہے؟کےا عدلیہ کی آزادی کو ترمیم کے زریعے ختم کےا جاسکتا ہے ،1973کا آئین اسلامی رےاست کا مذہب ہے ،اس کا بنےادی ڈحانچہ آئین بنانے والی کمیٹی نے طے کےا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ پارلیمنٹ کو صوبے کے پی کے کا نام تبدیل کرنے کا استحقاق نہ تھا صوبے کا نام صرف ریفرنڈم کے ذریعے ہی تبدیل ہوسکتا ہے ،اس پر جسٹس سرمد جلا ل عثمانی نے کہا پارلیمنٹ کے پاس اختےار ہے وہ نام تبدیل کرسکے ،حشمت حبیب نے کہا کل پارلیمنٹ پاکستان کا نام تبدیل کردے تو؟ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا آپ کو تقریر کا شوق ہے تو اسمبلی جاکرکریں آہستہ بولیں ،حشمت حبیب نے کہا اونچا بول کر آپ گستاخی کررہے ہیں مجھے سننا عدالت کا کام ہے ،پیلے جسٹس ثاقب نثار پھرچیف جسٹس نے کہا ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے آپ بیٹھ جائیں اس پر حشمت حبیب نے کہا آپ نے نہیں سننا تو نہ سنیں۔ اس دوران کامران مرتضیٰ نے حشمت حبیب سے استدعا کی ججوں سے براہ راست اس طرح کا مکالمہ نہ کریں جس پر ایڈووکیٹ حشمت حبیب روسٹرم سے ہٹ گئے اور بعد ازاں عدالت سے باہر چلے گئے۔ان کے بعد ایک درخواست گزار کے وکیل ذوالفقار سعید بھٹہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ضروری نہیں جیتنے والی سیاسی جماعت کے مقرر کردہ اقلیتی نمائندے اپنے لوگوں کی نمائندگی بھی کر رہے ہوں ، اقلیتوں کا معاملہ آئین کے دیباچے میں موجود ہے سےاسی پارٹی کی لیڈر شپ اپنے حامی اقلیتوں کے نمائندوں کو لاتی ہے ،ان کو الگ سے اپنی برادری کے توسط سے بذریعہ الیکشن منتخب ہونا چاہئے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اقلیتی نمائندے قانون کے مطابق منتخب ہوتے ہیں سیاسی جماعتیں ٹکٹ جاری کرتی ہیں اور پورے ملک میں اس کا ایک حلقہ قرار دیا جاتا ہے، کوئی سےاسی پارٹی کامےاب ہوتی ہے تو اس کے امیدوار بھی کامےاب ہوتے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ ضروری نہیں اقلیتوں کا لیڈر سےاسی جماعتوں کا بھی منتخب کردہ فرد ہو ،اقلیتی نشستوں پر امیدوار سےاسی طور پر آتے ہیں ۔دوران سماعت شاہد اور کزئی نے کہا پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہوتی ہے جو اپنے اختےارات آئین کے مطابق استعمال کرتی ہے مگر کوئی آئین سازی اسلام کے منافی نہ کی جاسکتی ،حدود کے تجاوز سے مسائل جنم لیتے ہیں مگر طاقت کے زور پر ہر کام کےا جاتا ہے جنگل کا قانون نہیں ہونا چاہئے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ایک مسلمان بہت زیادہ مقبول ہے مگر وہ آئین کے مطابق معےار پر پورا نہیں اترتا تو پھر وہ الیکشن نہیں لڑ سکتا بیرونی ملک رہنے والا پاکستانی دوہری شہریت کی وجہ سے بھی الیکشن نہیں لڑ سکتا۔کے پی کے کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا آئینی ترامیم سے آئین کمزور نہیں ہوتا آئین کا ایک بنےادی ڈھانچہ ہے جو قران و سنت سے لےا گےا ہے ،انسانی حقوق سے تصادم ترامیم کو عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے آئین سے پاس ہونے والا بل قانون بن جاتا ہے انسانی حقوق کا چیپٹر آئین میں باقی شکوں کے مساوی ہے ،پارلمینٹ کا ترامیم کا اختےار غیر آئینی نہیں آئین کے آرٹیل 9تا28انسانی حقوق سے متعلق ہیں ،جو ختم نہیں ہوسکتے ، جسٹس عظمت سعید نے کہاکےا پارلیمنٹ کو آئین ختم کرنے کا اختےار ہے ،افتخار گیلانی نے کہا جی ہاں ،ترامیم کا اختےار پارلیمنٹ کے پاس ہے عدالت کے پاس نہیں ایک ترمیم کو دوسری ترمیم سے تصادم کی بنےاد پر کالعدم قرار نہیں دےا جاسکتا اقلیتوں کا انتخاب سےاسی معاملہ ہے ،نظام سے متعلق عوام نے طے کرنا ہے کون سا نظام چاہئے۔ جسٹس جواد نے کہا کےا پارلیمنٹ نظام کو تبدیل کر سکتی ہے؟ افتخار گیلانی نے کہا جی کر سکتی ہے۔ جسٹس قاضی عیسیٰ نے کہا اقتدار اعلیٰ اللہ تعالی کے پاس ہے کئی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے ،اس حوالے سے نےا نظام لاےاگےا ،ایک نےا نظام صرف خون بہانے سے ہی نہیں آسکتا،جرمنی میں پارلیمنٹ ایسا کرتی تو عالمی جنگ چھڑ چکی ہوتی،کےا پاکستان میں غلامی اور تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بننے والوں پر پابندی کے بارے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں ہوسکتی ؟جسٹس آصف کھوسہ نے کہا 32ممالک میں اظہار رائے پر پابندی ہے ،4ملکوں میںمحدود آزادی ہے جب19ملکوں میں جذوقتی طور پر نافذ ہوتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں ۔افتخار گیلانی نے کہا مذہب معاشروں میں عوام کو حقوق دیئے گئے ہیں جو سلب نہیں کئے جا سکتے، پارلیمنٹ سعودیہ طرز کی بادشاہت یہاں بھی رائج کرنے کا اختےار رکھتی ہے اس حق کی اجازت آئین و قانون نے دی ہے۔ اس کا فیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے وہ کس طرح کا نظام چاہتے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں۔ ان کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت یکم جون پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
آئینی ترامیم کیس

ای پیپر-دی نیشن