کرکٹ کریسی
حالیہ دورہ زمبابوے پاکستان کے لئے دنیا میں اپنا تشخص بہتر کرنے اور پاکستان میں کرکٹ کی باضابطہ بحالی کی نوید دے گیا ہے۔یقینا کرکٹ ڈپلومیسی اپنا ایک جداگانہ اوراہم مقام رکھتی ہے۔ اس کا سب سے پہلا اور باضابطہ استعمال سابق حکمران ضیاء الحق نے دورہ بھارت میں کیا جب وہ بن بلائے انڈیا پہنچے اور راجیو گاندھی سے ملاقات کر کے اپنا بھرپور اور مکمل موقف پیش و ثابت کرنے میں کامیاب رہے اور بھارت کو ممکنہ جارحیت سے روک دیا۔ اسکے علاوہ ان کے قریبی پالیسی میکر نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ضیاء نے اپنے دور میں مشہور ٹی وی ڈراموں اور لمبی کرکٹ سیریز کے دھیان میں لگائے رکھا۔ 1965ء کی جنگ کے بارے میں ایک بھارتی مصنف نے لکھا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے مقامی مخدوش حالات سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان پر حملہ کیا۔ اسی طرح بھارتی سیاست میں فلمی ستاروں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو بھی الیکشن میں کامیابی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سروے کے مطابق کرکٹ کے ستاروں کی چمک فلمی ستاروں پر بھاری پڑ رہی ہے۔
کرکٹ کا کھیل دنیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیاکی ڈیڑھ ارب آبادی میں بالخصوص ایک مذہب کا درجہ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ حالیہ زمبابوے کی ٹیم کے دورہ پاکستان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں شائقین کسی بھی قسم ناگہانی صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جوق در جوق سٹیڈیم میں پہنچے۔شائقین نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے بینروں کی مدد سے پوری دنیا کو بھرپور پیغام دیا کہ ہم پُرامن قوم ہیں۔اس سے پہلے انڈیا میں آئی پی ایل کے آٹھویں ایڈیشن کا انعقاد کیا گیا ، چونکہ بھارت کو انٹر نیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے عین جس طرح یو ایس اے کو یونائیٹڈ نیشن میں حاصل ہے۔ اس کی بڑی وجہ آئی سی سی کی فنڈنگ میں سب سے زیادہ حصہ بھارت کی جانب سے ہونا اور بھارت میں منعقدہ کسی بھی ٹورنامنٹ کی وجہ سے انٹرنیشنل کمپنیوں کا اشتہارات اور اپنی اشیاء کو بیچنے کے لئے دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ کا میسر آنا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت سے تین دفعہ مس ورلڈ کا انتخاب ہونے میں ایک پوشیدہ عنصر سوا ارب کی آبادی میں کاسمیٹکس کی اشیاء کو بیچنے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ بھارت کی بات آئی سی سی میں سب سے زیادہ مانی جانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آئی پی ایل ٹورنامنٹ جو کہ بھارت کا خالصتاًاپنا ٹورنامنٹ ہے کے دوران کوئی بھی بڑی انٹرنیشنل سیریز منعقد نہیں ہوتی ۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سرمایا دار کیری پیکر نے 1970کی دہائی میں دنیا کے تمام ممالک سے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو اپنے ہاں بلوا کر میچ کروائے اور یوں کھیلوں میں پیسے کی طاقت کو منوایا ۔ بھارت کے علاوہ سری لنکا ، بنگلہ دیش ،برطانیہ اور ویسٹ انڈیز بھی اپنے ہاں ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس کا انعقاد کروا چکے ہیں۔ جس سے کرکٹ میں پیسے کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور کرکٹ کا کھیل سیاست میں بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ اپنی سیاسی کشیدگی کو کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو کھیلنے کا موقع نہ دے کر، کرتا ہے۔ اسی طرح 1980کی دہائی میں پاکستان کی ٹیم نے سری لنکا کا دورہ کیا باوجود اس کے کہ وہاں پر تامل علیحدگی پسندوں کی تحریک زوروں پر تھی اور خود کش دھماکے وہاں پر بھی معمول تھے۔ اس سیریز کے دوران ایمپائرنگ کا معیار ناقص ہونے کی وجہ سے ایک سٹیج ایسی آئی کہ لگا شاید پاکستان سیریز منسوخ کر دے ، مگر پاکستانی حکومت نے اپنا پورا اثرو رسوخ ہی نہیں اختیار استعمال کیا اور سیریز کو جاری رکھا۔ یوں سری لنکا میں کرکٹ کو جاری رکھنے میں پاکستان کا بڑا کردار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب توقع کی جا رہی ہے کہ زمبابوے کے بعد سری لنکا کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔ اس سلسلے میں سری لنکا کے پرانے کھلاڑی جے سوریا کا بیان بھی سامنے آچکا ہے۔ پاکستان کو کرکٹ میں اپنا نام اور مقام پیدا رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ Plannedپاکستان پریمئر لیگ کا جلد ازجلد انعقاد کرے چاہے یہ لیگ عرب امارات میں کروائی جائے وگرنہ اس کے لئے چین کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اجارہ داری کو بیلینس کرنے کے لئے چین میں کرکٹ لیگ کا انعقاد اور چین کی ٹیم بنانا ایک بہت موثر قدم ہو سکتا ہے۔ اس طرح سے’’ دوستی کے رشتے کھیلوں کے ناطے ‘‘کا نعرہ مزید استحکام پکڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملائیشیا میں جس طرح اذلان شاہ ہاکی کپ منعقد ہوتا ہے اسی طرز پر کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد کی کوشش بھی کی جانی چاہیے ۔ اگر مقامی سطح کی سیاست کو دیکھا جائے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کی وجہ شہرت جو انہیں کھیل سے میدان سے سیاست میں لائی اور اسے برقرار رکھا ہے کی وجہ صرف اور صرف عمران خان کی کرکٹ کے میدان میں کامیابیاں ہیں۔ جس میں 1992کا ورلڈ کپ ابھی تک پاکستان کی تاریخ کی ایک معجزانہ کامیابی ہے ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی قیادت کرکٹ کی بحالی اور تواتر سے اس جادوئی اثر کو شاید کم کر سکے۔ عین اسی طرح پاکستان کا بین الاقوامی برادری میں تشخص Cricketcracyکے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے۔