چہروں پر ترنگا
اظہار فورم کے زیراہتمام یہ واقعی دانشوروں کی محفل تھی جس میں میرے لئے سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ‘ بہت ہی کچھ تھا۔ جی ہاں! یہ فورم اظہار کنسٹرکشن کمپنی المعروف ’’اظہار کی چھتیں‘‘ والے کراتے ہیں۔ یہ نیک کام انہوں نے دسمبر 2014ء میں شروع کیا۔ اب تک تین چار مجلسیں منعقد ہو چکی ہیں۔ اس طرح اور اس سطح کے فورمز کے مباحث کو تحریری شکل دیکر اشاعت کا انتظام کر لیا جائے تو ایسے فورم تھنک ٹینک کا کام کر سکتے ہیں اور ان کا پیغام محبت جہاں تک پہنچ سکے ضرور پہنچایا جانا چاہئے۔اظہاراحمد اور اسرار بھائی ہیں‘ ایک نے کنسٹریکٹو دوسرے نے کنسٹرکشن کا کام شروع کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے کام میں بڑا نام کمایا۔مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کا مشن ان کے بیٹے حافظ عاکف سعید اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ میڈیا کی نظر سے دیکھا جائے تو حافظ عاکف سعید عوامی حلقوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد کا مشن ان کی طرح مٹی کے ساتھ مٹی ہوکر اور عام آدمی کے ساتھ عام آدمی بن کر ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔
فورم اپنے وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے دوپہر شروع ہو گیا۔ میں نے ایک بجے پہنچنے کا وعدہ کیا تھا‘ تاہم دس منٹ قبل حاضر ہو گیا۔ اوریا مقبول جان کی تھاٹ پر ووکنگ گفتگو جاری تھی۔ سکالرز کا میرے بعد بھی آنے کا سلسلہ جاری رہا۔اظہار کمپنی کی طرح اظہار فورم کے چیئرمین بھی ایوب صابر اظہار ہیں۔شرکاء میںایوب بیگ مرزا،افضل الرحمٰن، پروفیسرہمایوںاحسان‘ حافظ شفیق الرحمن‘ شہباز انور،پروفیسر غالب عطا،وسیم احمد اور آصف حمید تھے۔ہر مقرر نے بولنے کا حق ادا کر دیا۔
آج موضوع ’’پاکستان میں دہشتگردی میں را کا کردار‘‘ مذاکرے کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ پاکستان کے دشمن ہم خود پاکستانی ہیں۔ ’’را‘‘ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ ’’را‘‘ کو کبھی پاکستان میں اپنے ایجنٹ داخل کرنا پڑے تھے اب وہ سارا کام پاکستانیوں کو خرید کر کراتا ہے۔ پاکستان کے امن کا دشمن صرف ’’را‘‘ ہی نہیں ہمارے بادی النظر میں دوست ممالک بھی ہیں۔ ان کو گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ چاہ بہار گوادر سے 60 کلومیٹر دور ہے۔ گوادر کی تعمیر‘ تکمیل اور فنکشنل ہونے سے چاہ بہار کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ ایران نہیں چاہے گا گوادر کے سائے میں چاہ بہار پنپ نہ سکے ۔ امارات والوں کو بھی گوادر کا آپریشنل ہونا گوارا نہیں۔ امارات میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ دی گئی ہے۔ افغانستان کو گوادر اور نزدیک پڑتا ہے اور اس کی تجارت کو فروغ مل سکتا ہے مگر وہ بھارت کے اثر سے اب بھی نہیں نکل پایا۔ بھارت تو پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ ایسے میں پاکستان کے بظاہر دوست نظر آنے والے ممالک بھی پاکستان کیلئے را والا کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔ ایک صاحب نے تاریخی حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’را‘‘ کی کارروائی کے باعث ہم کسی حد تک متحد ہیں۔ شاہ فیصل جن دنوں اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں اور پلاننگ کررہے تھے ان دنوں امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر سعودی عرب گئے۔ ان کی شاہ فیصل سے ملاقات ہوئی۔ شاہ فیصل نے اسرائیل سے شدید نفرت کا اظہار کیا تو کسنجر نے کہا کہ وہ اسرائیل کا ایک پیغام آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ شاہ فیصل نے کیا بتائیں۔ اسرائیل کا پیغام یہ تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کو نابود کرنے کی پلاننگ کرنے والے عرب ملک اسرائیل کے شکر گزار ہوں کہ اسرائیل کے باعث یہ سب متحد ہیں۔ اگر اسرائیل نہ ہو تو عرب ممالک ایک دوسرے سے لڑ کر مر جائیں۔
حافظ شفیق الرحمن کا کہنا تھا کہ ہماری این جی اوز فارن ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں۔ ان کے دو ہی مقاصد ہیں۔ پاکستان میں ڈی اسلامائزیشن اور ڈی نیوکلیئریشن۔ یہ این جی اوز آٹھویں ترمیم کی مخالفت اسی وجہ سے کرتی ہیں کہ اس میں امتناع قادیانیت قانون موجود ہے۔
شہزاد انور نے ’’را‘‘ کی تخلیق کے مقاصد اور اہداف پُر اثر انداز میں بیان کئے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ’’را‘‘ کے پاکستان میں مداخلت کے ثبوت عالمی فورموں کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ میرا سوال تھا کہ جہاں جو بھی شہر اقتدار کا مسافر ہے‘ اس کے چہرے پر ترنگا بنا نظرآتا ہے۔ دنیا کے سامنے ’’را‘‘ کو بے نقاب کون کرے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ’’را‘‘ کیلئے کام کرنے میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔ کابالاغ ڈیم کوبم سے اڑانے تک کی دھمکیاں دینے والے حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے صدابہار چیئرمین ہیں جن کے والد محترم نے فرمایا تھا ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔‘‘ مفتی محمود نے اپنے اس بیان سے کبھی رجوع نہیں فرمایا حضرت مولانا فضل الرحمن نے اور ان کی پارٹی نے اس بیان سے نہ صرف کبھی لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ اپنے آبائواجداد کے فکر و فلسفے کے پیروکار ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایک اہل علم کی اطلاعات تھیں کہ اب ’’را‘‘ متحدہ کی پشت پر نہیں ہے۔ ان محترم نے بتایا کہ ان کا ایک ہندو دوست ہے۔ اس سے حالیہ دنوں ملاقات ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ آپ کی ’’را‘‘ نے متحدہ سے لاتعلقی کیوں اختیار کر لی۔ ان کااپنے لہجے میں کہنا تھا۔’’جب ہمارا کام نواج اور جرداری کر رہا ہے کسی اور کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ہوسکتا ہے یہ متعصب ہندو کی طرف سے’’ رامتحدہ‘‘ تعلقات کو کیموفلاج کرنے کی کوشش ہو۔
جب بھارت لائن آف کنٹرول پر سے شر انگیزی کرتا ہے‘ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ کور کمانڈر کہتے ہیں کہ ’’را‘‘ پاکستان میں مداخلت کر رہی ہے اور اس کے عسکری سیاسی قیادت کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں۔الطاف حسین کھلے بندوں را کو مدد کے لئے پکارتے ہیںجبکہ فوج اور ایجنسیوں کے پاس را اور متحدہ کے رابطوں کے ثبوت موجود ہیں۔اس سب کے باوجود بھی بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات اٹوٹ رہتے ہیں۔کیا یہ سوالیہ نشان نہیں ہے؟
کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالے راہداری کو بھی متنازعہ بنا رہے ہیں۔یہ کس کا ایجنڈہ ہے۔بھارت مسلسل راہداری کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ کیا ’’را‘‘ کیلئے کام کرنے والوں سے دوستی رکھنے والے ’’را‘‘ کے دشمن ہو سکتے ہیں؟اسی لئے ان کے چہروں پر ترنگا بنا نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں سے ’’را‘‘ کے خلاف کارروائی کی توقع کوئی ذی شعور نہیں کرسکتا۔ ہونا کیا چاہئے‘ شاید ایک دو ماہ میں ہونے والاہے۔جس کا اشارہ فورم میںملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک دانشور نے کیا تھا۔