• news

’’عزیزی‘‘

مدت پہلے ہمارے ملک کے صف اوّل کے اداکار سہیل احمد نے اپنے عروج کے وقت فحاشی، عریانی، نامناسب جگت بازی، ذومعنی ڈائیلاگ، کمینے مذاق، اور واہیات الفاظ کے خلاف بطور احتجاج تھیٹر کو خیر باد کہہ دیا تھا، پاکستان ٹیلی ویژن پر اکثر ان سے ٹاکرہ ہو جاتا اس معاملے میں، میں ان کی سنجیدگی اور متانت کا قائل ہو گیا تھا کیونکہ وطن اور ہم وطنوں کی خیر خواہی اور امت مسلمہ کیلئے وہ ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں مگر شاید لاعلمی کی بنا پر انہوں نے ایسے کام کی ابتداء کی جس کی دیکھا دیکھی اور اداکارائوں نے بھی عربی لباس پہن کر اپنے برادر ملک کے باسیوں کو احمق، اور بے وقوف ثابت کرتے ہوئے ان پر مسلسل طنز کے تیر برسا کر اللہ کا یہ فرمان بھول گئے کہ کوئی قوم کسی قسم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں، ممکن ہے وہ ان سے اچھی ہوں (الحجرات) حضورؐ کی بھی حدیث ہے کہ لوگوں سے مذاق کرنے والوں کے ساتھ قیامت کے روز یہ سلوک ہو گا کہ جنت کا دروازہ کھول کر اسے ادھر بلایا جائے گا، وہ غم کا مارا جب وہاں پہنچنے والا ہو گا، تو دروازہ بند کر دیا جائے گا یہ سلوک اتنا لگاتار ہو گا کہ جب حقیقتا دروازہ کھول دیا جائے گا تو وہ مایوسی اور ناامیدی کی بنا پر اس کے پاس نہیں جائے گا، نیز حسن خلق موجب برکت ہے اور بدخلقی نحوست ہے۔ (ابودائود) اس کے علاوہ جو طرہ ڈالی گئی ہے، ہر مزاحیہ فنکار اپنے ہی نہیں ہندوئوں پہ سالہا سال حکومت کرنے والے محسن شہنشاہوں اور ہندوستان پہ مسلمانوں کا علم بلند کرکے جھنڈا گاڑھنے والوں کا بیدردی اور انتہائی گھٹیاں انسان جس کا دہرا معیار ہو دکھا کر ظالمانہ طریقے سے مذاق اڑایا جاتا ہے۔  دنیا بھر کے ناظرین کو کیا پیغام جاتا ہو گا اور نئی نسل اس سے کیا سیکھے گی اور ان کے ذہن میں اپنے اسلاف کے بارے میں کیا تاثر ہو گا؟ کہ مغل بادشاہ واقعی، احمق اور اجڈ تھے، ایسا کرکے ہم بھارتیوں کو کیا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں؟ ہنسی مذاق کے بارے میں حضرت موسیٰؑ کے بارے میں قرآن میں درج ہے ’’وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو (موسیٰؑ ) نے کہا میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نادان ہوں‘‘۔ ترمذی شریف میں روایت مذکور ہے جس میں رسول پاکؐ کا فرمان ہے کہ آپؐ نے دو مرتبہ فرمایا کہ ’’جو شخص لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔ خدارا پیسوں کی خاطر نہ خود ذاتی پستیوں میں گر جائیں نہ ہی بلائے گئے مہمان کی عزت خاک میں ملائیں۔ مہمان کو بلا کر ذلیل و خوار کرنا، میں نے اکثر پروگراموں میں دیکھا ہے جس کو وطیرہ بنا کر دراصل میزبان، مہمان کی نہیں اپنی شخصیت کو بے نقاب کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ مذاق دل کو مردہ اور چہرے کی رونق چھین لیتا ہے مگر یہاں تو پیسے کی لالچ میں ضمیر مردہ ہو گئے ہیں۔مقام حیرت ہے، جس  وطن میں سینکڑوں بچوں کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا ہو اور طنزاً کلمے کے نام پہ حاصل کئے گئے وطن میں کلمہ پڑھا کر گولی مار دی جاتی ہو، جہاں سینکڑوں مزدوروں کو اس لیے زندہ جلا دیا جاتا ہو کہ فیکٹری کے مالک نے بھتہ ادا نہیں کیا، جہاں بس کے تمام مسافروں کو بس میں گولی مار دی جاتی ہو کہ یہ مختلف مسلک کے لوگ تھے، جس ملک میں وزیر اعظم کے بچوں کو اغواء کر لیا جاتا ہو، جہاں ممبران پارلیمان کو گاڑی کے اندر بھون دیا جاتا ہو، جہاں گلگت، سکردو اور بلوچستان میں ہزارہ قبائل کے لوگوں کے ساتھ روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہو اور جہاں دیدہ دلیری سے دشمن ملک کا وزیر داخلہ ببانگ دہل یہ کہے کہ ہر دہشت گردی کے پیچھے ہمارا ہاتھ ہے اور آئندہ بھی ہم یہ سرپرستی کرتے رہیں گے اور ہمارے سیاستدان بھی اپنی مدد کیلئے (را) سے مدد مانگنے کی دھمکی دیں۔ جس ملک میں مائیں بچوں کو بیچ دیتی ہوں، جہاں طوائفیں کھلے عام کہیں کہ مخیر حضرات یا حکومت ہماری مالی مدد کا متبادل انتظام کرے تو ہم یہ مکروہ دھندہ چھوڑنے کو تیار ہیں مگر بھوکی نہیں مر سکتیں، جہاں غربت و افلاس کے مارے افلاک والے یہ توکل چھوڑ کر پھانسی کے پھندے میں جھول جائیں، جس ملک کے ہر شہر کی بڑی سڑک مظاہرین اپنے مسائل کے مطالبات کے حل کے لیے بند کر دیتے ہوں۔ مگر شام سے رات گئے تک ہر چینل پر سوائے وقت چینل کے ان مسائل کے باوجود ٹھٹھے، ہنسی مذاق، اور بے حیا پروگراموں میں اس طرح سے مصروف ہو جاتے ہیں کہ گویا ہم اسلامی فلاحی مملکت کے باسی ہیں جہاں زکوٰۃ و صدقات لینے والا کوئی نہیں رہا اور جہاں کوئی بھوکا، اور کوئی بچہ ننگا نہیں رہتا، تھر، چولستان اور دیگر ریگستان پاکستان میں لہلہاتی اور فصلیں اگلتی کھیتوں کھیلانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، خدارا ہوش کے ناخن لیں، خدا کو راضی کرنے کے وقت جب آنکھوں سے رقت آمیز آنسو نکلنے چاہئیں، ہنسی و مذاق کے توہین و ذلب آمیز آنسو رواں ہوتے ہیں۔ میرا حسن ظن محض عزیزی اور جنید کے ساتھ ہے کہ جو محض ظریف نہیں بلکہ صاحب ظرف بھی ہیں اور جنہیں ملک و قوم کا درد بھی ہے۔ شاید وہ ہماری آسوں اور امیدوں میں رنگ بھر دیں کیونکہ اور لوگ بھی امید سے ہیں!!!

ای پیپر-دی نیشن