کرکٹ بحالی لاہور پولیس کا کریڈٹ اور امن میرا حق
سی سی پی او لاہور کے افسر تعلقات عامہ نایاب حیدر نے مجھے خط لکھا ہے۔ میرے کالم ’’قذافی سٹیڈیم کا ریسٹ ہائوس اور سکیورٹی انتظامات‘‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پنجاب پولیس بالخصوص لاہور پولیس نے مہمان کرکٹ کی سکیورٹی کے لئے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پولیس کارکردگی پر جو داغ لگا تھا اسے شہید انسپکٹر پولیس عبدالمجید نے اپنے خون سے دھو دیا ہے۔ اب بے داغ سکیورٹی لاہور پولیس کا ایک کریڈٹ ہے۔ کرکٹ کے شائقین اور کھلاڑیوں کی حفاظت کے لئے سخت موسم میں دل و جان سے فرائض سرانجام دیے۔ وہ ایک قابل تعریف کام ہے۔ لوگوں کو سکیورٹی انتظامات کے دوران مشکل کا سامنا ہوا۔ لوگوں کو ایک اذیت سے گزرنا پڑا۔ بہرحال غیرضروری اقدامات کے ذریعے کوشش کی گئی کہ لوگوں کی تکلیف میں کمی ہو۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی رہنمائی میں سی سی پی او کیپٹن محمد امین وینس نے اس سارے عمل میں ذاتی دلچسپی لی۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور ایس ایس پی انوسٹی گیشنز رانا ایاز سلیم نے بھی کیپٹن صاحب کی بھرپور معاونت کی۔ محمد امین وینس نے کنسٹیبل سے لے کے افسران تک کو اپنی اپنی ڈیوٹی کے حوالے سے بریفنگ دی اور پھر خود نگرانی کرتے رہے۔
اپنی تکلیف کے باوجود لوگ خوش تھے کہ اتنے برسوں کے بعد عالمی سطح پر ہماری کرکٹ بحال ہوئی ہے۔ پاکستان ٹیم کی جیت نے اس اعزاز اور خوشی کو دوبالا کر دیا۔ مگر ایک منچلے لاہوری نے جملہ پھینکا کرکٹ بحال لوگ بے حال۔ دوسرے نے کہا کہ ہم لوگ بدحال تو پہلے سے ہیں۔ انشااللہ وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم خوشحال ہوں گے اور خوشی سے نہال بھی ہوں گے۔ ہمارے ملک میں حالات جیسے بھی ہوں کرکٹ کے ساتھ لوگوں کی وابستگی اٹل ہے۔ جو میچ وغیرہ نہیں دیکھتے اس بات میں ضرور دلچسپی لیتے ہیں کہ نتیجہ کیسا رہا۔ پاکستان جیتا کہ نہیں۔ میچ بھارت کے خلاف ہو تو لوگ کھیل کے میدان کو جنگ کا میدان سمجھتے ہیں۔ کسی اور ملک سے پاکستان ہار جائے تو کوئی حرج نہیں مگر بھارت سے نہیں ہارنا چاہئے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کو اس کیفیت کا خیال رکھنا چاہئے۔ اب مہمان زمبابوے کرکٹ ٹیم خیریت سے اپنے وطن پہنچ گئی ہے تو یہ ایک اچھی خبر عوام کے لئے ہے۔ لاہور پولیس بھی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اب دوسرے ملکوں سے بھی ٹیمیں پاکستان آئیں گی اور ہمیں پھر سکیورٹی کے انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
اس ضمن میں میرے ذہن میں ایک تجویز ہے جو میں حکام بالا اور پولیس افسران کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ میں صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ قذافی سٹیڈیم کا ریسٹ ہائوس بہت اچھا ہے۔ اسے مہمان ٹیموں کے لئے اور بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کھلاڑی وہاں آسانی اور آسودگی سے ٹھہر سکتے ہیں۔ اس کو تھوڑی سی کوشش سے اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ وہیں سے کھلاڑی نکلیں اور پیدل کرکٹ میدان میں پہنچ جائیں۔
لاہور پولیس کو بھی آسانی ہو گی اور لوگوں کو بھی آسودگی ملے گی۔ تمام کام روٹین کے مطابق ہو گا۔ یہ ایک تجویز ہے۔ اس پر غور و فکر کرنا حکام اور افسران کا کام ہے۔ جو سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے وہ بہت خوش اسلوبی سے پروان چڑھے۔ چند دن تھے وہ بخیر و خوبی گزر گئے مگر اس کے لئے مزید منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
نایاب حیدر نے ’’جاسوس کبوتر‘‘ والے کالم کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ خود کبوتروں سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اپنے گھر میں کئی نایاب کبوتر نایاب صاحب نے پال رکھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کبوتر امن و امان کا دلدادہ پرندہ ہے۔ بھارت کے حکام اور انٹیلی جینس ایجنسیوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ایک معصوم پرندے کو استعمال کیا ہے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ پاکستان سے دیگر ممالک میں بھی کبوتروں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ حکومت اس طرف توجہ دے تو زرمبادلہ بنانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
آخر میں ایک بہت اہم کتاب کا ذکر جس کا نام ’’امن میرا حق‘‘ ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محمد راغب نعیمی نے مرتب کی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں اور پاکستان میں نجانے کیسی کیسی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور نجانے کیا کیا نہیں کہا جاتا۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایک مرد قلندر نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ امن میرا حق ہے۔ انسانی حقوق کی بحث یہ بڑا دلچسپ اضافہ ہے۔ مجھے یہ حق دیا جائے۔ بدامنی، دہشت گردی، قتل و غارت اور فرقہ واریت کے درمیان زندگی کو شرمندگی اور درندگی کا شکار بنانے والوں کے لئے ایک چیلنج ہے کہ انسانی کا ایک حق پرامن معاشرہ بھی ہے۔
اس کتاب کا انتخاب راغب نعیمی نے اپنے والد گرامی شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے نام کیا ہے جنہیں حق پرستی اور امن دوستی کی پاداش میں گولی ماری گئی۔ کتاب میں سہیل وڑائچ، سلمان غنی، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، صاحبزادہ امانت رسول نجم، ولی خان، حافظ ارشد اقبال، پروفیسر محمد سلیم، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی عمران حنفی کی تحریریں شامل ہیں۔
راغب نعیمی کہتے ہیں قرآن و سنت کی کم فہمی، تعلیم کا فقدان، عدل و انصاف میں تاخیر اور دیگر کئی وجوہات نے ریاست پاکستان کے پیش منظر کو دھندلا دیا ہے۔ ساتھ ہی مذہبی طبقہ کی انتہاپسندی اور شدت پسندی نے بھی معاشرے کے تانے بانے کو متاثر کر دیا ہے۔ طبقہ علماء اور مذہبی رہنماؤں کے بارے میں ہمیشہ یہ تاثر رہا ہے کہ وہ نرم خو روادار اور برداشت کے حامل ہوتے ہیں لیکن گذشتہ 15 برسوں میں علماء کی یہ خصوصیات ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں۔