وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائیگا : دھرنوں‘ سیلاب کی وجہ سے اہم معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکے : اقتصادی سروے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/بی بی سی/نیوز ایجنسیاں/نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت نے مالی سال 2014-15 کے دوران معیشت کی کارکردگی کے بارے میں اقتصادی سروے جاری کردیا جس کے مطابق رواں مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ، سروسز سیکٹر، زراعت، ایل ایس ایم ای سمیت اہم معاشی سیکٹرز کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 2015-16کی درمیانی مدت کے معاشی اہداف کا اعلان بھی کیا ہے جس کے مطابق آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 5.5فیصد مقرر کیا گیا ہے جسے 2018تک 7فیصد تک بڑھایا جائے گا افراط زر کو آئندہ تین سال میں دس فیصد سے کم سطح پر رکھا جائے گا زرمبادلہ کے ذخائر 2018 تک 20ارب ڈالر یا اس سے زائد رکھے جائیں گے جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کا حجم 60فیصد سے نیچے لایا جائے گا اور آئندہ تین برس میں برآمدات کا ہدف 32ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ سنیٹر اسحاق ڈار نے میں اقتصادی سروے کے نمایاں نقاط بیان کیے انہوں نے کہا پاکستان میں کرپشن ایک حقیقت ہے اس کو ختم کرنا ہے دیہی معشیت کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں دسمبر 2017تک لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے نجی شعبہ کو قرضوں کی کم فراہمی کی تحقیقات کی جارہی ہے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کا تناسب 11.3فیصد ہے وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال جی ڈی پی گروتھ 4.24فیصد ہوئی ہے جبکہ ہدف 5.1فیصد تھا اس طرح جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا رواں مالی سال میں شدید سیلاب آیا سیاسی عدم استحکام ہوا دھرنے چلتے رہے تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں گریں جس کا اثر دیگر مصنوعات کی قیمتوں پر بھی گیا اس کے باعث گروتھ پر منفی اثرات ہو ئے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے 4.24فیصد گزشتہ سات سال میں سب سے زیادہ گروتھ ریٹ ہے مینوفیکچرنگ سیکٹرکی گروتھ گزشتہ مالی سال میں 3.99فیصد تھی جو رواں مالی سال میں 2.38فیصد متوقع ہے زرعی سیکٹر کی گروتھ 2.88فیصد ہے جو ہدف سے کم ہے افراط زر میں سی پی آئی 4.6فیصد رہی ہے زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن بھی بہتر رہی ہے ملکی برآمدات میں تین فیصد کی منفی گروتھ ہوئی ہے برآمدات کی مقدار میں تو اضافہ ہوا ہے تاہم چیز وں کی عالمی قیمتیں گرنے کی وجہ سے جو مانیٹری ویلیو ہے اس میں کمی آئی ہے کرنٹ اکاونٹ خسارہ دس ماہ میں 1.36ارب ڈالر رہا ہے دس ماہ میں 14ارب 97کروڑ مالیت کی ترصیلات موصول ہوئی ہیں جو سولہ فیصد اضافہ ہے انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ ذخائر جلد 17ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 101.88فیصد پر مستحکم ہے ایف بی آر کا نظر ثانی شدہ ہدف 2605ارب روپے ہے دس ماہ میں 1972ارب روپے جمع ہوئے ہیں نجی شعبہ کو قرضوں کی فراہمی 162ارب روپے رہی جو تسلی بخش نہیں ہے اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی لاگت میں کمی آرہی ہے 201-15تک مجموعی طور پر 107ار ب ڈالر کی نقصانات ہو ئے 30جو ن کو ختم ہونے والے مالی سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی لاگت 4.5ارب ڈالر تھی جبکہ گزشتہ سال یہ لاگت 6ارب 60کروڑ ڈالر رہی تھی کراچی آپریشن اور آپریشن ضرب عضب کا آغاز سے معاشی سرگرمیاں بڑھی ہیں اور نقصانات میں کمی آئی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایل این جی کی بنیادپر بجلی بنانے کے منصوبے بھی کام کررہے ہیں۔36سو میگاواٹ کے منصوبے ایل این جی کی بنیاد پر شروع کیے جارہے ہیں اس طرح توانائی کے سیکٹر میں 116ارب روپے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے اس سال سکوک بانڈ جاری کیا گیا تھا پالیسی ریٹ سات فیصد پر آگیا ہے جو سب سے کم ترین سطح ہے پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو پہلے مکمل کرنے پر اتفاق رائے ہے اور پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے رقم مختص کردی گئی ہے وفاقی حکومت نے صوبوں کو کہا ہے کہ وہ سماجی سیکٹر کے لیے مختص رقوم میں اضافہ کرے وفاق اور صوبے مل کر تعلیم کے لیے اخراجات 2018تک جی ڈی پی کے 4فیصد تک لے جائیں گے انہوں نے کہا کہ ملک میں بیروز گار ی کی شرح 5.8فیصد ہے ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ساری دنیا میں پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں اس مالی سال کے دوران تیل کی قیمتیں گرنے کے باعث حکومت کو 90ارب روپے کا ریونیو خسارہ ہو ا بھارت سمیت مختلف ممالک نے تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اپنے ریونیو کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ نیویارک ٹائم میں خبر چھپی ہے جس میں سٹیٹ کے اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جب اتنا بڑا الزام آئے تو وہ قانون کے مطابق کاروائی کریں چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ایگزٹ کے ساتھ انکم ٹیکس کامعاملہ نیا نہیں ہے ایپلٹ ٹریبونل میں کیس زیر سماعت ہے۔ بی بی سی کے مطابق اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی سالانہ 2 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور ملک کی آبادی 19 ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان میں شرح پیدائش تین اعشاریہ دو فیصد ہے لیکن اتنی آبادی والے ملک میں صحت اور تعلیم کی سہولیات آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان میں ایسے افراد جو کام کر سکتے ہیں اْن کی تعداد چھ کروڑ ہے اور ان میں پانچ کروڑ 65 لاکھ افراد ملازمت کر رہے ہیں اور تین کروڑ افراد ایسے ہیں جو ملازمت کے قابل تو ہیں لیکن بے روزگار ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے نو سال کی عمر بچوں میں سے محض 57 فیصد ہی سکول میں داخلہ لے پاتے ہیں۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے جن میں سے خواتین میں خواندگی کی شرح محض 47 فیصد ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اوسط عمر 66 سال اور چھ ماہ ہے اور ملک میں پیدا ہونے والے ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 69 بچے پیدا ہونے کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کی عدم سہولیات اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے ایک ہزار بچوں میں تقریباً 86 بچے پانچ سال کی عمر تک پہچنے سے پہلے مر جاتے ہیں جبکہ زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بھی خطے کے دوسرے ملکوں کے مابین زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 75 ہزار 223 ڈاکٹر رجسٹرڈ ہیں اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے 1073 افراد کے علاج معالجے کے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ رجسٹرڈ نرسوں کی تعداد 90 ہزار ہے۔ پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 4500 ہے۔ ملک میں جنوری سے جون تک پولیو کے 25 کیسز سامنے آئے ہیں۔ دریں اثنا حکومت کا کہنا ہے رواں مالی سال کے دوران سیاسی عدم استحکام اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اقتصادی ترقی کا پانچ فیصد کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بڑی صنعتوں میں ترقی کی شرح 2.5 فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال صنعتوں میں ترقی کی شرح 4.6 فیصد رہی تھی۔ زرعی شعبے نے 2.88 فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ خدمات کے شعبے کی شرح نمو 4.95 فیصد رہی ہے۔ مہنگائی کم ہو کر سنگل عدد میں آ گئی۔ دس ماہ میں کرنٹ اکا?نٹ خسارہ دو ارب ڈالر رہا گزشتہ سال اسی عرصے کا کرنٹ اکا?نٹ خسارہ دو ارب 93 کروڑ ڈالر ہے۔ جولائی تا اپریل برآمدات کا حجم 20 ارب 18 کروڑ ڈالر ے زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 73 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے۔ حکومتی اقدامات سے کرنٹ اکا?نٹس خسارے میں کمی ہوئی۔ بجٹ خسارہ 5 فیصد رہے گا۔ دھرنے کی وجہ سے کاروباری افراد تذبذب کا شکار تھے دہشت گردی کی وجہ سے 14 سال میں ملکی معیشت کو 107 ارب ڈالر کا نقصان ہوا مڈل کلاس کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں دھرنے کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوئیں ایس آر اوز کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بنک سے قرضوں میں 532 ارب روپے کی کمی کی گئی۔ آن لائن کے مطابق رواں مالی سال 2014-15کے دوران وفاقی حکومت کی معاشی میدان میں کارکردگی مایوس کن رہی، زرعی ،صنعتی اور پیداواری شعبہ میں مقررہ اہداف پورے نہ ہو سکے، جبکہ ایف بی آر بھی ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، تاہم حکومت نے ناکامیوں کی تمام تر ذمہ داری ناموافق موسم،آپریشن ضرب عضب، سیلاب اور دھرنوں کے علاوہ توانائی بحران پر ڈال دی ہے۔ دریں اثنا وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس آج ہو گا جس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ دی نیشن کے مطابق حکومت نے معاشی اہداف کے حصول میں اپنی ناکامی کی ذمہ داری سیلاب اور دھرنوں کی وجہ سے ہونے والے سیاسی عدم استحکام اور عالمی منڈی میں تیل اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی پر ڈالی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آج قومی اسمبلی میں مالی سال 2015-16 کے لئے وفاقی بجٹ پیش کریں گے۔ بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 1300 ارب روپے سے زیادہ لگایا گیا ہے جو بینکوں سے قرض اور بیرونی ذرائع سے پورا کیا جائے گا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 42 سو ارب روپے سے زائد ہو گا جس میں ایف بی آر کے ریونیو کا ہدف 31 سو بلین روپے سے کچھ زائد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں دو سے اڑھائی سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جبکہ 100 ارب روپے کی مالی مراعات کو ختم کر دیا جائے گا۔ بجٹ میں صنعت کے کچھ سیکٹرز کو ریلیف دیے جانے کا امکان ہے جن میں ٹیکسٹائل سیکٹر شامل ہے جس کی برآمدات شدید طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لئے برآمدات کا ہدف 25 بلین ڈالر سے کچھ زائد مقرر کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کو ریلیف دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں ماضی کے کچھ ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہوں میں شامل کر کے اس پر 10سے 15 فیصد اضافہ دیے جانے کا امکان ہے۔ بینکوں سے نقدی نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کارپٹ نان فائلرز کے لئے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس طرح سگریٹ، بیوریجز سیمنٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ بجلی کا سبسڈی میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط کے تحت کمی لائی جائے گی۔ گاڑیوں کی درآمد کی پالیسی میں کوئی بنیادی ردوبدل نہیں کیا جا رہا۔ پاکستانی مینوفیکچررز کو حد سے زیادہ تحفظ دینے کی پالیسی جاری رکھی جائے گی۔ انکم ٹیکس کے سلیب بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔ برآمدی سیکٹر کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3103.71 ارب روپے دفاع کے لئے 772 ارب روپے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 107 ارب روپے، مالیاتی خسارے کا ہدف 43 فیصد اور جی ڈی پی کی شرح 5.5 فیصد مقرر کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اگلے مالی سال کے لئے وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا حجم پندرہ سو ارب روپے سے زائد رکھے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ میں انسداد دہشت گردی کے اخراجات کے لئے نیا ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس ٹیکس سے 30 ارب روپے اکھٹے ہوں گے جو بڑے کاروباری اداروں پر لگایا جائے گا۔ بجٹ میں سونے اور چاندی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں سگریٹ چینی، مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کا امکان ہے۔