صدر کا خطاب روایتی تھا‘ سراج الحق: قوم کو مایوسی ہوئی: خورشید شاہ
اسلام آباد/ لاہور (وقائع نگار+ خصوصی نامہ نگار) صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر اپوزیشن اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے اپنے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے صدر کے خطاب پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا صدر ممنون حسین کے خطاب سے قوم کو مایوسی ہوئی۔ صدر نے حکومت کی لکھی ہوئی تقریر ایوان میں پڑھی، ان کی جانب سے حکومت اور پارلیمنٹ کی 2 سالہ کارکردگی کی تعریف تعجب کی بات ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا صدر ممنون حسین کی تقریر میں عام آدمی کی کوئی بات نہیں کی گئی جبکہ حکومت اور پارلیمنٹ کی 2 سالہ کارکردگی مایوس کن ہے اور اس حوالے سے حکومت نے قانون سازی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی نے عوام کو اپنا حق مانگنے کی طاقت دی، پیپلز پارٹی نے 73ء کا آئین بحال کرایا، کیا یہ غلطی تھی؟ اپنے دور حکومت میں مزدوروں کی تنخواہ میں 125 فیصد اضافہ کیا۔ ہم نے مینار پاکستان میں بجلی کیلئے کیمپ نہیں لگائے۔ ذوالفقار بھٹو نے بیٹی کو کہا تھا عوام کی حفاظت کرنا، ہمارے دور میں سی این جی دودن بند ہوتی تھی، اب 2 ماہ نہیں ملتی، سب خاموش ہیں۔ راہداری منصوبے میں کوئی رکاوٹ بنی تو پیپلز پارٹی مزاحمت کرے گی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا صدر ممنون حسین کی تقریر میں تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا اور اس میں کسی بھی چیز کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا گیا کہ حکومت نے فلاں چیز میں فلاں توپ مار دی۔ دہشت گردی کے حوالے سے تحفظات بیان کرنا صدر مملکت کا کام نہیں بلکہ وزیر اعظم کا کام ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا صدر مملکت کی تقریر میں الفاظ مثبت تھے لیکن ملک کی مجموعی صورت حال کا پس منظر بیان نہیں کیا گیا۔ اس وقت ملک میں پانی کا بحران، جسٹس سسٹم، تعلیم، صحت، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن صدر کی تقریر ملک کی مجموعی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹر کلثوم پروین نے کہا صدر ممنون حسین کی تقریر بہت مثبت اور کلیدی تھی۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے فضا کچھ حد تک سوگوار ہے لیکن صدر ممنون حسین نے اپنی تقریر میں اس کا بھی ذکر کیا کہ ہم دشمن سے نبرد آزما ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہر القادری نے اپنے ردعمل میں کہا صدر کا خطاب وزیراعظم کی طرف سے مختلف اوقات میں جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کا مجموعہ تھا، یہ صدر مملکت کا خطاب کم اور مسلم لیگ ن کے صدر کا خطاب زیادہ تھا۔ پوری قوم بدامنی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ صدر نے حکومت کی شان میں قصیدہ گوئی کر کے غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ صدر نے کرکٹ کا ذکر ضرور کیا مگر لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں بھٹکنے والی قوم کو بھول گئے۔ صدر مملکت کو حکومت سے بازپرس کرنی چاہیے تھی کہ 21ویں ترمیم کی روشنی میں چاروں صوبوں میں فوجی عدالتیں فنکشنل کیوںنہیں ہوئیں؟ این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیوں نہیں ہوا؟ چار میں سے 2صوبوں میں تاحال بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں ہوئے۔امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا صدر پاکستان کا خطاب اچھا تھا مگر اس میں پورا زور حکومتی کامیابیوں کو گنوانے پر لگایا گیا جبکہ حکومتی ناکامیوں اور عام آدمی کے مسائل کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا صدر مملکت کے خطاب میں عوام کو درپیش مسائل کے حل پر زور دیا جانا چاہئے تھا اور عام آدمی کو غربت، مہنگائی، بے روز گاری، تعلیم، صحت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے ان کو دور کرنے کیلئے حکومت کو توجہ دلانی چاہئے تھی مگر صدر نے اپنی تقریر حکومت کی کارکردگی کو سراہنے تک محدود رکھی۔ صدر مملکت عوامی مسائل اور ملکی بحرانوں کا تذکرہ کرتے تو عام آدمی سمجھتا صدر نے ان کے دل کی بات کی اور سربراہ مملکت کو عوامی مسائل کے حل سے بھی دلچسپی ہے۔ خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا انتخابی عمل صاف شفاف اور بااعتماد ہونا چاہیے تھا مگرایسا نہ ہوسکا، ان انتخابات کے حوالے سے لوگوں کو بہت سی شکایات ہیں،ہم سمجھتے ہیں اور خود عمران خان کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ جہاں پر دھاندلی کی ٹھوس شکایات ہوں اُن کا ازالہ ہونا چاہیے۔ آئی این پی کے مطابق سراج الحق نے کہا صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب روایتی تھا آج تک میں نے کسی ایسے صدر کی تقریر نہیں سنی جس نے اپنی حکومت کا احتساب اور محاسبہ کیا ہو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے کہا صدر کی تقریر روایتی تھی اس میں کوئی خاص اہمیت کی حامل بات نہیں تھی لیکن افسوس انہوں نے اپنی تقریر میں سانحہ صفورا کراچی سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات کا ذکر تک نہیں کیا۔