وفاق کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا‘ بجلی چوری بڑھنے‘ قوت خرید پر منفی اثرات کا خدشہ
لاہور (تجزیہ: احسن صدیق) وفاقی حکومت کا 2015-16ءکیلئے بجٹ انہی خطوط پر ہے جس پر ماضی میں بجٹ پیش کئے گئے جن کے نتیجے میں بیشتر اہم اہداف حاصل نہیں ہو سکے تھے‘ ان میں معیشت کی شرح نمو‘ ٹیکس وصولی‘ بجٹ خسارہ‘ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات کے اہداف حاصل نہ ہونا شامل ہے۔ ایف بی آر کے نئے ٹیکس وصولی کا ہدف 3100 ارب روپے ہے، اس میں سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو رقوم منتقل کرنے کے بعد جو رقم وفاق کے پاس بچے گی ان سے تو قرضوں کا سود اور وفاقی حکومت کے ترقیاتی اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے چنانچہ وفاق کو پورے ملک کے اخراجات چلانے کیلئے قرضوں پر انحصار کرنا ہو گا۔ ٹیکس وصولی اور قومی بچتوں میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کی بجائے نجکاری اور بیرونی ترسیلات پر انحصار بڑھایا جا رہا ہے حالانکہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ہنڈی کے ذریعے ٹیکس چوری اور کرپشن کی رقم باہر بھیج کر ترسیلات منگوائی جاتی ہیں چنانچہ صحیح معنوں میں ٹیکس وصولی کبھی نہیں بڑھے گی۔ قومی تعلیمی پالیسی 2009ءمیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جون 2013ءمیں اعلان کیا تھا کہ 2015ءمیں تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 7 فیصد خرچ کیا جائیگا لیکن تعلیم کی مد میں وفاق اور صوبے 1300 ارب روپے سے کم مختص کریں گے۔ شرح سود میں کمی سے حکومت اور بنکوں سے قرضے لینے والوں کو تو فائدہ ہو گا لیکن بنکوں کے کھاتے داروں کو ٹیکس کاٹنے کے بعد صرف 6 فیصد سالانہ منافع ملے گا۔ اسی طرح قومی بچت میں سرمایہ کاری کرنیوالے بھی متاثر ہوں گے۔ بجٹ میں توانائی‘ پانی کے شعبے اور پاک چین راہداری کیلئے رقوم مختص کی گئی ہیں جو کہ مثبت قدم ہے۔ اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پر رقوم بڑھائی گئی ہیں مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس پروگرام کو مائیکروفنانس سے منسلک کر دیا جاتا، اس طرح لاکھوں لوگوں کو 100 ارب روپے کی بجائے رزق حلال کمانے کیلئے 400 ارب روپے ملتے، یہ فیصلہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں ٹیکس بیس کو بڑھانے کی بجائے فائیلرز اور نان فائیلرز کیلئے ٹیکس کی الگ الگ شرحوں کے نظام کا اعلان کیا ہے جس پر ٹیکس دہندگان نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نان فائیلرز تو پہلے ہی ٹیکس نہیں دیتے انکے حصے کا ٹیکس بھی ٹیکس نیٹ میں موجود ٹیکس دہندگان کو دینا پڑیگا۔ حکومت کو نان فائیلرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقدام کرنے چاہئے تھے۔ نان فائیلرز کیلئے اضافی ٹیکس ادائیگی کا نظام رواں مالی سال بھی مثبت نتائج نہیں دے سکا۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 2810 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا جسے حکومت نے پورا نہ ہونے کے بعد نظرثانی کر کے 2605 ارب روپے کر دیا۔ خدشہ ہے کہ اب آئندہ مالی سال بھی ایسا ہی ہو گا۔ اسی طرح حکومت نے آئندہ بجٹ میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کو جواز بناتے ہوئے گھریلو صارفین کے بجلی کے بلوں پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کی حد جو رواں سال ایک لاکھ روپے سے زائد تھی اسے کم کر کے 75 ہزار روپے کیا ہے، حکومت کے اس اقدام سے بجلی چوری میں اضافہ ہو گا۔ خدشہ ہے کہ صارفین کی بڑی تعداد جن کے بجلی کے ماہانہ بل 75 ہزار روپے ہونگے وہ ملی بھگت سے بجلی چوری کریں گے اور چوری کئے جانیوالے یونٹوں کی ادائیگی غریب عوام کو اووربلنگ کی صورت میں کرنی پڑیگی۔ علاوہ ازیں حکومت نے جون کیلئے پٹرولیم قیمتوں میں ساڑھے 3 روپے فی لٹر اضافہ کیا ہے۔ ان عوامل سے متوسط طبقے اور غریب عوام کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب ہونگے جبکہ پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے اثرات اشیاءضروریہ پر مرتب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ پرچون سطح پر سبزیوں‘ پھلوں اور پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ جس کے اثرات ماہ رمضان میں نمایاں ہونگے۔ اس طرح حکومت نے بجٹ میں انڈر انوائسنگ اور سمگلنگ کی روک تھام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حکومت نے بجٹ میں صرف ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے مراعات کا اعلان کیا جبکہ کارپٹ‘ سرجیکل گڈز اور لیدر سیکٹر کو نظرانداز کیا ہے جس سے ان سیکٹرز کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ بجٹ میں سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7.5 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا لیکن ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن میں اضافے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
بجٹ/ تجزیہ