پنڈی میٹرو بس کے افتتاح کیلئے ان دیکھا کالم
پنڈی میٹرو بس کے افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے برادرم مومن آغا سیکرٹری اطلاعات اور ڈی جی پی آر برادرم اطہر علی خان نے دعوت دی تھی مگر میں بوجوہ نہ جا سکا۔ میں نے سنا ہے کہ سب مہمان بس میں سوار ہوئے۔ میں نے تو ابھی تک لاہور والی میٹرو بس میں سوار ہو کے نہیں دیکھا۔ ایسا جشن کا سماں پنڈی اسلام آباد میں تھا جیسے عمران خان سے پہلے ہی نیا پاکستان وجود میں آ گیا ہو۔ جس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا مگر جو مسائل اب عمران کی سیاست اور سیاسی جماعت میں عام لوگوں کو ہیں وہ تو نہیں ہیں۔ عمران کہتا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ میٹرو بس پنڈی کی تقریب میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک شہباز شریف کے ساتھ بیٹھے تھے۔
شہباز شریف نے انہیں کہا کہ میں پشاور میں میٹرو بس بنا کے آپ کو دوں گا۔ اس تقریب میں آنے کا مقصد پورا ہو گیا۔ میٹرو بس کے خلاف عمران اب تو بات کرنا چھوڑ دیں۔ وہ یہ بات کرنے سے باز نہیں آئیں گے تو پرویز خٹک مستعفی ہو جائیں۔ وہ میرٹ پر آتے ہیں میرٹ پر ہی جائیں گے۔ اس تقریب میں عمران کے خلاف نعرے بازی کو شہباز شریف نے روک دیا۔ اس کا کریڈٹ بھی پرویز خٹک نے اپنے دامن میں ڈال لیا جو پہلے ہی خاصا بھرا ہوا ہے۔ خٹک صاحب نے اپنے دل میں کہا ہو گا کہ میرے پیسے پورے ہو گئے۔ عمران کے خلاف نعرہ نہیں لگا۔ اس بہانے سے وہ شریف برادران کی محفلوں میں جا نکلتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بھی تھے مگر سندھ کے بزرگ اور نحیف و نزار وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نہ تھے۔ ایک دن پہلے جب شہباز شریف کراچی گئے تو قائم علی شاہ ان کے ساتھ سینہ تان کر چلنے کی کوشش میں لڑکھڑا گئے۔ انہیں شہباز شریف نے سہارا دیا۔ شاہ صاحب اکثر صوبے کے باہر کے لوگوں کے ساتھ شان سے چلتے ہوئے لڑکھڑاتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری ان کے بڑھاپے اور کمزوری کو اپنی طاقت اور جوانی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بلاول شاہ صاحب کو ہٹوا نہیں سکے تو ان کا کچھ علاج ہی کروا دیں۔ البتہ سندھ کے گورنر عشرت العباد بھاگے آئے۔ ان سے استعفیٰ لینے کی خبر اس کے فوراً بعد شائع ہو ئی ہے؟ کیا عشرت العباد اپنے وزیراعلیٰ کی نمائندگی کر رہے تھے تو پھر وہ تھوڑا سا لڑکھڑا کے ہی دکھاتے۔
شہباز شریف نے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بڑا بن کر احساس کمتری کو احساس برتری میں بدلنے کا ایک سفر قرار دیا۔ شرط یہ ہے کہ یہ سفر میٹرو بس کے ذریعے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس بس میں غریب اور امیر سب کے لئے الگ الگ پاکستان نہیں بننے دیں گے۔ وی آئی پی کلچر کب ختم ہو گا۔ دولت اور حکومت کے زور پر استحصال پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا بگاڑ ہے جس نے لوگوں کو اذیت اور ذلت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نواز شریف کے سمدھی وزیرخزانہ نے کہا ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس لکیر کا اس لکیر سے کیا تعلق ہے جس کو سرحد کہتے ہیں۔ شہباز شریف نے اسے ٹھیک کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔ ہر ابتدا میں ایک انتہا ہے کہ انتہا پسندی سے کب ہماری جان چھوٹے گی؟ شہباز شریف نے اقبال کے ایک مصرع سے اپنی بات کا جواب پیش کیا:
ایک ہی ’’بس‘‘ میںکھڑے ہو گئے محمود و ایاز
مگر یہ لوگ صف میں کب کھڑے ہوں گے؟ انہوں نے بار بار پڑھے ہوئے شعر پھر پڑھے۔ کچھ لوگوں نے محسوس کیا ہو گا کہ پہلی بار سنے ہیں۔ حس مزاح رکھنے والے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بدل رہا ہے، آپ بھی اپنے شعر بدل دیں۔ بار بار پڑھے ہوئے شعروں کے علاوہ دوسروں کی بھی باری آنے دیں۔ بار بار اور باری کے لئے سیاسی حوالے سے بات عمران خان کرتے ہیں۔ اس پر بھی غور کیا جائے۔ اس مشورے کے لئے تخلیقی شخصیت شعیب بن عزیز کو بھی غور کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے اکثر لوگ شعر کو شیر سمجھتے ہیں۔ یہ ن لیگ کا انتخابی نشان بھی ہے۔ کنونشن سنٹر میں عوامی اور سرکار ی جلسوں میں شیر آیا شیر آیا کے نعرے گونجتے ہیں۔ ایک شاعر نے بہت اعلیٰ شعر سنائے۔ ن لیگ کے ایک بہت عوامی اور وفادار متوالے نے کہا یہ کیا شعر ہیں کوئی ببر شعر سنائو۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی مزاحیہ باتیں سن کر کھل کھلا کر ہنستے رہے۔ حیرت ہے کہ بڑے بھائی کے بال کالے ہیں اور چھوٹے بھائی کے بال سفید ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے دعا کروائی۔ یہ یقیناً قبول ہو گی۔ وہ اپنے سیاسی فیصلوں کی طرح دعا بھی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ پنڈی میٹرو بس کے لئے شہباز شریف کے نمبر دو برادرم حنیف عباسی نے اپنے حریف شیخ رشید کے لئے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ میٹرو بس میری لاش پر چلے گی۔ میٹرو بس تو چل پڑی۔ اب شیخ رشید چلتی پھرتی لاش ہیں۔ اس کے حامی اپنی اس لاش کو دفن کر دیں۔ خیالی نماز جنازہ وہ اس مولوی صاحب سے پڑھائیں جس نے عمران اور ریحام کا نکاح پڑھایا تھا۔ پہلی بار بھی یہ نکاح اس نے پڑھایا تھا۔ مولوی صاحب دوسری بار اصلی نماز جنازہ پڑھائیں۔ اللہ شیخ صاحب کی عمردراز کرے اور ان کی دراز دستیوں میں بھی اضافہ کرے۔
شہباز شریف نے ایک بہت دلچسپ اور معنی خیز بات کہی کہ میٹرو بس پر لوگ پتھرائو نہیں کر سکیں گے۔ خطرہ تو پتھرائو کا ہے۔ لوگوں کے ہاتھ کب تک خالی رہیں گے۔ پھر ہاتھوں میں پتھر ہی آئیں گے۔ میٹرو بس بنانے میں بڑے فائدے ہیں۔ سڑکیں بھی بنانے کا شوق حکمرانوں کو بہت ہوتا ہے۔ اس میں بڑے ’’فائدے‘‘ ہیں۔ میری تجویز ہے کہ لوگوں کی سہولت کے لئے شہروں میںمیٹرو بس چلائی جا رہی ہے۔ یہ سارے شہروں کو آپس میں ملانے کے لئے بھی میٹرو بس ہو۔ موٹر وے بھی میٹرو بس کی ایک قسم ہے فیصل آباد کے بعد سرگودھا اور میانوالی تک موٹر وے ہو۔ اقتصادی راہداری ضروری ہے تو سیاسی راہداری بھی ضروری ہے۔
پنڈی میٹرو بس بہرحال لاہور میٹرو بس سے زیادہ شاندار ہے۔ حنیف عباسی کہتے ہیں کہ کون کہتا ہے شریف برادران صرف لاہور میں سارے فنڈز لگاتے ہیں؟ یہ منصوبہ بھی ریکارڈ مدت میں مکمل ہوا ہے۔ انہوں نے نواز شریف کے شہباز شریف کی تعریف کی۔ اصل تعریف شہباز شریف کی ہونی چاہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صرف نو ماہ کی مدت میں سب کام پورا ہوا ہے۔ نو ماہ کی مدت میں ایک بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ عوام کو بھی حکمرانوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ کرے میٹرو بس پنڈی ایک بچے کی طرح ہو۔ کہتے ہیں بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے؟
ایک آخری بات کہ کراچی میں شہباز شریف نے کہا، میں آصف زرداری سے پھر معذرت کرتا ہوں۔ پہلے انہوں نے کب معذرت کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں ہے؟ یہ معذرت انہیں نہیں کرنا چاہئے تھی۔ جو بات انہوں نے ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے کہی۔ اگر عملی طور پر ممکن نہیں مگر سیاسی طور پر بالکل برحق اور برمحل ہے۔ وہ اس کھانے میں شریک نہ ہوئے جس میں ’’صدر‘‘ زرداری نواز شریف کی دعوت پر رائے ونڈ میں شریک ہوئے تھے۔ یہ کیسی شرکت تھی کہ ’’صدر‘‘ زرداری اپنا کھانا اپنے ساتھ لے کے آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ افسوس ہے کہ مریم نواز نے کچھ کھانے خود بڑے شوق سے بنائے تھے مگر مہمان نے نہ کھائے۔ جو بندہ کھرب پتی ہو کر مزے سے کھانا بھی نہ کھا سکے اس کے حکمران بننے کے بعد بدمزدگی تو ہو گی۔ مقام عبرت ہے اور چیلنج؟