• news

وزیر اعظم نے جمہوریت کے احترام پر کیوں زور دیا

اخبارات کی شہہ سرخیوں سے غلط فہمی کا احتمال ہے، جوشخص پنڈی میٹرو کی افتتاحی تقریب میں موجود نہیں تھا اور س نے ٹی وی پر بھی براہ راست وزیر اعظم کو نہیں سنا، اس کا انحصار اخباری سرخیوں پر ہی رہ جاتا ہے۔اور وہ کچھ یوں ہیں:

آئین کی حکمرانی رہے گی تو پاکستان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا،
تمام ادروں کو جمہوریت کا احترام کرنا چاہئے،
مارشل لا میں جنگیں ہوئیں اور جمہوریت میں ترقی کا سفر طے ہوا،
ظاہر ہے وزیر اعظم نے ملفوف زبان استعمال نہیں کی، ان کے مخاطب نہ تو ڈسکہ کے پولیس والے ہیں ، نہ بپھرے ہوئے وکلا، نہ ہر دو چار ماہ بعد جلوس نکالنے والے کسان، انہوں نے مارشل لا اور جمہوریت کا موازنہ کیا ہے اور پاکستان میں اگر اداروں کی کشمکش رہی ہے تو وہ فوج اور جمہوری ادارے ہیں، اس کشمکش کا آغاز کس نے کیا، یہ سوال ایسا پیچیدہ نہیں کہ پہلے انڈہ تھا یامرغی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب، جنرل یحی خاں نے بلا وجہ مارشل لا لگایا، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جنرل ´ضیا اور جنرل مشرف کے پاس مارشل لا لگانے کی وجوہات تو تھیں مگر آپ فوجی اکیڈیمیوں میں پڑھائی جانے والی ۔۔کو ڈیتا۔۔ کی کتابوں پر نظر ڈالیں تو مخلف ممالک میںیہ اسباب فوج خود بھی پیدا کر تی رہی ہے۔
اگلا سوال یہ یے کہ کیا اس وقت جمہوری اداروں اور فوجی اداروں میں کوئی کشمکش ہے، بظاہر تو نظر نہیں آتی۔جو بیانات وزیر اعظم دیتے ہیں، وہی بیانات آرمی چیف بھی دے دیتے ہیں مگر یہ میڈیا ہے جو آرمی چیف کے بیانات کو حد سے زیادہ اچھال رہا ہے۔ اور شاید اسی سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔
زرداری دور میں فوج اور منتخب حکومت میں کئی مواقع پر تصادم ہوا۔ مگر زرداری جیسا غیر سیاسی شخص کامیابی کے ساتھ اپنی ٹرم پوری کر گیا، بہر حال اسے پریشان ´ضرور کیا جاتا رہا اور اس پریشانی میں اضافہ اس وقت کی عدلیہ نے بھی کیا اور بلا وجہ کیا، سوئس حکومت کو ایک خط لکھنے پر اصرار اور اس کوتاہی پر وزیر اعظم گیلانی فارغ۔
مگر کیا آج ایسے حالات ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ بالکل ابتدا میں حکومت کو دھرنوں سے پریشان کیا گیا اور وزیر داخلہ ریکارڈپر ہیں کہ پریشانی کا موجب جنرل پاشا تھے۔میں نے یہ تاثر جنرل پاشا کے ریٹائر ہونے پر کئے گئے تبصرے سے اخذکیا تھا ، چودھری نثار نے کہا تھا کہ مجھے آج ایک جماعت سے ہمدردی ہے جو یتیم ہو گئی ہے، کچھ اسی سے ملتے جلتے الفاظ ہوں گے، مگر یہ کوئی چارج شیٹ نہ تھی۔ فوج اور حکومت کے مابین ایک بحران اس وقت پیدا ہوا جب ایک میڈیا ہاﺅس نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو نشانہ بنایا، وزیر اعظم زخمی صحافی کے گھر پہنچ گئے اور آرمی چیف آئی ایس آئی کے دفتر۔ اس سے پہلے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے بھی غلط فہمیوں نے جنم لیا مگر فوج نے اس معاملے میں اپنا ذہن نہیں کھولا۔ فوج اور ایک سیاسی جماعت کا تصادم بھی ہوا جب اس جماعت کے امیر نے پاک فوج کے شہدا کو شہید ماننے سے انکار کیا، فوج نے مطالبہ کیا کہ جماعت معافی مانگے مگر جماعت نے معذرت کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ابھی ایم کیوایم کے قائد کے خطاب کے بعد بھی پیدا ہوئی، اس میں فوج کی تنقیص کی گئی تھی، اب بھی فوج نے کہا کہ اس بیان پر معافی مانگی جائے مگر جواب ملا کہ فوج پر کوئی تنقید تو کی ہی نہیں گئی۔ یہ ایک ناخوشگوار صورت حال تھی، اب خبریں آئی ہیں کہ کراچی کی کسی میٹنگ میں زرداری اور آرمی چیف یا شایدرینجرز کمانڈر کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ہر شخص جانتا ہے کہ اس ماحول میں کراچی آپریشن کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کیا ہوا، میرے ذہن میں تو کچھ نہیں آتا لیکن ممکن ہے وزیر اعظم نے کسی اور پس منظر میںبات کی ہو یا ایک اصولی بات کی ہو، جہاں تک اصول کا تعلق ہے تو فی زمانہ جمہوریت کا کوئی نظام بھی نعم البدل نہیں اور جو لوگ ماضی میں مختلف مارشل لاﺅں کی حمائت کر چکے ہیں ، وہ آئندہ نہیں کریں گے کیونکہ لوگوں کا شعور بیدار ہو چکا ہے، آئندہ کسی فوجی حکومت کو کوئی کنونشن لیگ یا ق لیگ دستیاب نہیں ہو سکتی ، نہ کوئی الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب اور نہ کوئی جسٹس منیر، اس وقت تو عدلیہ فوجی عدالتوں کو قبول کرتی ہے یا نہیں، یہ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
روز سنتے تو یہی ہیں ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے دہشت گردی کے مسئلے پر حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں،ضرب عضب کو قومی حمائت حاصل ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں حکومت کا شروع میں نظریہ کچھ اور تھا مگر اب وہ فوج ہی کی زبان میں گفتگو کر رہی ہے۔اور فوج حکومت کے لب و لہجے میں، تو نتیجہ یہ نکلا کہ فی الحال کسی بد گمانی کی ضرورت نہیں۔
کچھ حلقے دوریاں بڑھانے کے لئے کہتے ضرور ہیں کی جی ایچ کیو متبادل دارالحکومت بنا ہوا ہے، اہم تریں غیر ملکی وفود وہاں جاتے ہیں مگر مجھے بتائیں کہ اگر کوئی غیر ملکی تعلیمی وفد آئے گا تو کیا وہ اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے ملاقاتیں نہیں کرے گا، کیاڈینگی کے سری لنکن ماہرین ہمارے ہسپتالوں میں نہیں جاتے تھے،تو اس سے کیا ہو جاتا ہے کہ جان کیری جی ایچ کیو چلے گئے۔ جو لوگ ان باتوں کو اختلافی بناتے ہیں، ان کی طرف دھیان نہیں دینا چاہئے۔
وزیر اعظم تیسری بار اپنے منصب پر سرفراز ہوئے ہیں، وہ طویل عرصہ جلا وطنی کا عذاب سہہ چکے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا خاندان بھی اور پارٹی قائدین بھی قید وبند اور ٹارچرکاشکار ہوئے۔ یہ تو قیامت ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے والد بزرگوار کو لحد میں نہ اتار سکے۔اس ابتلا سے گزرنے کے بعد وزیر اعظم نے بہت کچھ سیکھا ہے، پچھلے دو سال کے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی انہوں نے کسی سے محاذا ٓرائی مول نہیں لی، وہ تو عمران کے گھر بھی چلے گئے۔باقی اگر وہ سیاست دانوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو یہ ان کی کانسٹی چیونسی ہے، جنرل ضیا ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ فوج ان کی کانسٹی چیو نسی ہے تو پارلیمانی سیاستدان نواز شریف کی کانسٹی چیونسی ہیں، دھرنوں کے دوران انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا،یہ ایک خالصتا جمہوری اقدام تھا۔سعودی عرب کے مسئلے پر بھی پارلیمنٹ کا فیصلہ لیا گیا اور خود وزیر اعظم نے آرمی چیف کی ہمراہی میں ریاض کا دورہ کر کے سعودی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی۔کراچی کے مسئلے پر وہ ہر اجلاس میں زرداری صاحب کو ساتھ بٹھاتے ہیں، زرداری کی پارٹی سندھ کی نمائندگی کی دعویدار ہی نہی، عملی طور پر انیس سو ستر سے اس صوبے کی سیاست پر حاوی ہے، یہاں جو کرنا ہے، اس میں اسے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، اب اگر زرداری کا رویہ کسی میٹنگ میں ناروا ہو جاتا ہے تو اس کے ذمے دار زرداری ہیں، نواز شریف تو نہیں، ویسے آپس میں ملتے رہیں گے تو ایک دوسرے کو اسی صورت سمجھنے میں آسانی ہو گی۔اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔ مگر زرداری صاحب کی تو اپنے بیٹے سے بھی نہیںبنتی۔ذوالفقار مرزا سے بھی نہیں بنتی۔
حکومت اس وقت معمول کے مطابق کام کر رہی ہے، فوج وہی ذمے داری ادا کر رہی ہے جو اسے سونپی گئی ہے اور وہ اسے بجا لانی ہے۔اس کے بغیر ملک میں قیام امن نا ممکن ہے۔
مجھے یہاں فوج کی وکالت نہیں کرنی اور اگر کسی کی وکالت کرنی پڑے تو میں آئین پر ایمان رکھنے والے شہری کی طرح حکومت کی وکالت کروں گا، آج تو مجھے کوئی خدشہ نظر نہیں آتا لیکن مستقبل بعید میں بھی کوئی مہم جوئی کی کوشش ہوتی ہے تو میں جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دوں گا۔میں جمہوریت کا نقاد ہوں ، دشمن نہیں اور فوج کے جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کا فدائی اور شیدائی ہوں مگر اس کے حق حکومت کو نہیں مانتا۔

ای پیپر-دی نیشن