ٹیسٹ ٹیم میں نئے لڑکوں کی زیادہ گنجائش نہیں: ہارون رشید
لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس)پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین ہارون رشید نے کہا ہے کہ ٹیم سلیکشن کے حوالے سے تعریف کم اور تنقید کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے، مثبت اور تعمیری تنقید میں بُرائی نہیں مگر ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی تنقید کررہے ہوتے ہیں جنھیں یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ ٹیم میں کونسے لڑکے شامل ہیں اور وہ کوئی سے دو لڑکوں کو لیکر سوال اُٹھارہے ہوتے ہیں کہ وہ ٹیم میں کیوں نہیں۔ وہ وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں سلیکشن کمیٹی کے رکن اظہر خان کے ہمراہ گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاک زمبابوے سیریز کے دوران کمنٹری پی سی بی کی ہدایت پر کی اور مجھے پی سی بی سے درخواست کرکے کمنٹری کے لئے بُلایا گیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ درخواست کرکے بُلاتے ہیں وہی بعد میں تنقید کررہے ہوتے ہیں۔ قومی ٹیم کی ٹیسٹ ٹیم میں نئے لڑکوں کے لئے زیادہ گنجائش نہیں، احمد شہزاد کی واپسی سے اُن کی جگہ کھیلنے والے کو جگہ خالی کرنا ہی تھی۔ جن نئے لڑکوں کو بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف جگہ دی گئی، وہ ہمارے ریڈار میں ہیں اور ہم انھیں سوچ سمجھ کر اور یہ دیکھ کر کہ وہ بڑی ٹیموں کے خلاف میدان میں اُترنے کے لئے کس حد تک تیار ہیں، دوبارہ مواقع دیں گے۔ایک طرف نئے لڑکوں کو موقع دینے کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیم کیوں ہار رہی ہے۔ چیئرمین سلیکشن کمیٹی نے کہا کہ ہم نے قومی ٹیم کے لئے پندرہ لڑکوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے اور ان میں سے بھی اکثر کھلاڑی پہلے سے منتخب ہوتے ہیں، ایک دو کھلاڑیوں پر ہی انتخاب باقی رہ جاتا ہے جو باہمی مشاورت سے طے کرلیا جاتا ہے۔ ہم نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اے ٹیم اور ایمرجنگ پلیئرز کی صورت میں پچاس سے ساٹھ لڑکوں کا پول تیار کرلیا ہے جو ضرورت پڑنے پر قومی ٹیم کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں۔سلیکشن کمیٹی کے رکن اظہر خان نے کہا کہ پاکستان اور زمبابوے کے درمیان سیریز کے دوران ان کا میچ ریفری کے طور پر انتخاب پی سی بی اور آئی سی سی کا فیصلہ تھا، مجھے تو اس بارے میں علم بھی نہیں تھا۔ سلیکشن کرنا آسان کام نہیں بلکہ چار سو کے قریب فرسٹ کلاس کرکٹرز کے پول میں سے پندرہ لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔سلیکشن کمیٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے ہم پورے ملک میں جاتے اور ٹیلنٹ منتخب کرتے ہیں۔ ہارون رشید سے بات منوانا بہت آسان ہے اور وہ سلیکشن کمیٹی کے ارکان کی رائے کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔