سپریم کورٹ نے بجلی بلوں پر سرچارجز وصولی روکنے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے بجلی کے بلوں پر عوام سے سرچارجز کی وصولی روکنے اور رقم صارفین کو واپس کرنے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظورکرلی ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ بجلی کے بلوں کے ذریعے سرچارجز کی وصولی کے اقدام کو بلوچستان اور سندھ ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا لیکن دونوں ہائیکورٹس نے درخواستیں خارج کر دی ہیں جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے نہ صرف سرچارجز کی وصولی روکنے کی ہدایت کی ہے بلکہ وصول شدہ رقم صارفین کو واپس کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں نیپرا کا کردار زیر بحث نہیں رہا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کی وصولی کب شروع کی گئی؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایاکہ غازی بروتھا ڈیم منصوبے کے باعث 2008ءمیں نیلم جہلم سرچارج لگایا گیا تھا، اس وقت بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارجز وصول کئے جا رہے ہیں جو نیپرا نے عائد نہیں کئے۔ نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ نیلم جہلم کے نام پر سرچارج کی مد میں صارفین سے 2008ءسے سرچارجز وصول کئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا نوٹیفکیشن گزشتہ برس 2014ءمیں جاری کیاگیاہے۔ سرچارج کی وصولی کے حوالے سے پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے حالانکہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرچارج کی وصولی نیپرا کے قوانین کے مطابق ہے اور اضافی سرچارج کی وصولی سے نیپرا قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔
سرچارج کیس