وڈیرے کے ہاتھوں بچے کی ہلاکت
مظہر علی خان لاشاری
یہ دنیا اور اس کا وجود عارضی اور ناپیدار ہے اس دنیا نے مٹ جانا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے اچھے اور برے اعمال لے کر جاتا ہے اور پھر اس اعمال کے ذریعے انسان کو جنت یا دوزخ ملے گی افسوس کہ آج انسان برے اعمال میں کھو چکا ہے۔ ذرا سی بات پر قتل ہور ہے ہیں حالانکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے ملک میں قانون اور انصاف مٹ چکا ہے۔ سزا کا خوف ختم ہو چکا ہے اس لیے قتل عام ہو چکا ہے جبکہ عدل پہلے ہی یہاں سے رخصت ہو چکا ہے اگرکسی سردار یا جاگیر دار سے قتل ہو جائے تو اُسے بیگناہ سمجھ کر چھوڑ دیا جا تا ہے۔ ایسا ہی ایک قتل ڈیرہ غازی خان میں 26 مئی کو ہوا جس میں ایک غریب کا 15 سالہ بیٹا محمد عامر ایک با اثر طاقتور وڈیرے کے ہاتھوں قتل ہوا جس کو اب بچانے کے لیے دوسرا رخ دیا جا رہا ہے۔ مقتول عامر کے والد اکبر علی کے بیان پر تھانہ صدر میں FIR عرفان کھوسہ اور اس کے بیٹے شاہ زیب پر کٹ چکی ہے۔جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مقتول عامر وڈیرے عرفان کھوسہ کے بیٹے شاہ زیب کیساتھ کھیل رہا تھا کہ جھگڑا ہو گیا جس پر مشتعل ہو کر وڈیرے عرفان کھوسہ نے فائرنگ کر کے عامر کو ہلاک کردیا۔ شاہ زیب کو تو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے کیونکہ مقتول خاندان انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ قاتل پارٹی ڈیرہ غازی خان کے با اثراور اقتدار یافتہ کھوسہ خاندان سے ہیں اس لیے میڈیا سمیت سب نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اور اب واقعہ کو شاہ زیب کھوسہ سے منسوب کرکے مقدمہ کو کمزور کیا جارہا ہے۔ جس میں ایک کہانی یہ بھی گھڑی جارہی ہے کہ پسٹل کے ساتھ کھیلتے ہوئے شاہ زیب سے فائرنگ ہونے سے عامر کی موت واقع ہوئی ہے۔اب یہاں پر اصل ذمہ داری پولیس کی بنتی ہے کہ FIR درج ہونے کے بعد انہوں نے کسی طرح سے میرٹ پر تفتیش کی کیونکہ جرم کی اصل کہانی FIR کے بعد تحقیقات کی صورت میں آتی ہے ڈیرہ غازی خان کے ڈی پی اُو غلام مبشرمیکن ہر کام میرٹ اور ضابطے کے مطابق کرنے کے عادی ہیں اُن کا امتحان بھی اس قتل کے پیچھے اصل چھپے ہوئے محرکات کو سامنے لانے میں ہے کیونکہ مقتول کے والد نے جوبیان پولیس کو دیا ہے اور پھر اُس بیان ہی کے مطابق FIR کٹ چکی ہے جس میں محمد عرفان کھوسہ نے پسٹل کے ساتھ فائرنگ کر کے بیگناہ ایک معصوم کو قتل کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ اس کی تفتیش کرانا ڈی پی اُو ہی کی اصل ذمہ داری ہے قاتل اگر با اثر سردار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قانون کی گرفت سے بچ نکلے گا اگر یہاں پر اگر کوئی غریب قاتل ہوتا تو کب کا گرفتار ہو چکا ہوتا جبکہ پولیس نے ابھی تک جو قتل کا نامزد ملزم ہے اُسے گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی ان سے تفتیش کی گئی ہے۔اب تو عبوری ضمانت ہو چکی ہے اور ملزم اپنی مرضی سے تفتیش میں شامل ہو کر اور مدعی پارٹی کو راضی کر کے بیگناہ ہو جائے گا۔ اس قتل کیس میں چونکہ ایک سردار ملوث ہے وہ یقینا مقتول پارٹی پر دباو¿ اور کئی ہر بے استعمال کر کے صلح کرائے گا اور یوں کیس دفتری فائلوں میں گم ہو جائے گا لیکن حاکم حاکمین کی ایک بڑی اور اصلی عدالت میںسب برابر ہیںڈی پی اُو غلام مبشر میکن یقینا پوری فرض شناس اور دیانتداری سے اس کیس کی تفتیش کریں گے قتل کیس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہے مدعی اور ملزم پارٹی دونوں کو انصاف ملنا چاہےے تاکہ معاشرے میں انصاف اور قانون کا بول بالا ہو سکے۔