کیا روہنگیا مسلمانوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں؟
جب برما کے فوجی حکمران نے 1982ء میں سٹیزن شپ ایکٹ کے ذریعے ہیںروہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا تونئے قانون کے تحت شہریت حاصل کرنے کیلئے انہیں یہ ثابت کرنا لازمی ہو گیا کہ انکے آباء و اجداد برما میں 1823ء سے قبل آکر آباد ہوئے تھے۔یوںعملی طور پر روہنگیا مسلمانوں کیلئے برما کی شہریت کا راستہ بند ہو کر رہ گیا۔بدھ مت کے پیروکارحکمرانوں کی روہنگیا مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے۔کہ وہ انہیں روہنگیا کی بجائے ٟٟبنگالی‘‘ کہتے ہیں ۔در اصل ا یسے اوچھے ہتھکنڈوں سے میانمر حکومت صرف یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش سے آنیوالے غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو میانمر کے شہری نہیں۔ میانمر حکومت انہیں دہشت گردقراردیتے ہوئے الزام عائد کر چکی ہے کہ بنگلہ دیشی افواج انہیں ٹریننگ دے کر میانمر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروانے میں ملوث ہیں۔بدھ مت انتہاء پسند تنظیم ’’969‘‘روہنگیا مسلمانوں کیخلاف نفرت کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش ہے۔مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں اس تنظیم کا سربراہ ایشن ویرتھ یو جو خو د کو ٟٟبرمی بن لادن ‘‘کہلوانا پسند کرتا ہے 2003ء میں قید ہو گیاتھا۔ 2012ء میں رہائی پانے کے بعد اپنے مشن پر گامزن ہے۔اسکا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان ریاست ریخائن پر قبضہ کر کے یہاں اسلامی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اگر ان کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ پورے میانمر پر قابض ہو جائینگے۔ایسی وجوہات کی بنا پر اس نے غیر مسلموں سے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف کاروباری بائیکاٹ کی اپیل کر رکھی ہے بلکہ ان پر حملوں کو جائز قرار دے رکھا ہے۔لہٰذا بدھ مت انتہاء پسندوں کے ہاتھوں جس بے رحمی سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ۔اس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیرروہنگیا مسلمانوں کی نقل و حمل پر پابندی عائد ہے۔انہیں شادی کرنے ،بچے پیداکرنے کیلئے حکومتی اجازت کی ضرورت ہے۔پبلک ہائی سکول میں داخلہ انکے بچوں کیلئے ممنوع ہے۔روہنگیا مسلمانوں اور انکے بچوں سے حکومت بلا معاوضہ سڑکوں پر پتھرتوڑنے جیسے کام لیتی ہے۔انہیں خوراک و صحت کی سہولیات میسر نہیں۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان مہاجرین بھارت،تھائی لینڈ، ملائیشیا اور بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیںیا آئی ڈی پیز کی حیثیت سے کیمپوں میں ہیں انکی مساجد اور رہائش گاہیں بدھ مت انتہاء پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ سرکاری اہلکار نقل و حمل کی اجازت کے عوض رشوت کے طور پر ان کی جائید ادیں ہتھیا رہے ہیں۔ انکے مکان نذر آتش کئے جا رہے ہیںاور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ۔کیا روہنگیا مسلمانوں کے کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی روہنگیا مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حمل اور انکی شہریت سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے حوالے سے قرارداد منظور کرچکی ہے لیکن میانمر حکومت نے قرارداد کو ملک کے اقتدار اعلیٰ میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اعلیٰ سطحی میٹنگ میں روہنگیا مسلمانوں کیخلاف ظالمانہ کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس حوالے سے چوہدری نثار،سرتاج عزیز اور طارق فاطمی پر مشتمل کمیٹی مقرر کر کے تجاویز پر مبنی رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیدیا ہے کمیٹی نے تجاویز وزیراعظم کو بھجوادی ہیں۔ ترکی نے روہنگیا مسلمانوں کی امداد کا فیصلہ کر کے اور انڈونیشیاء اور ملائیشیا کو روہنگیا مسلمانوں کیلئے آبادکاری مراکز کے قیام کی پیشکش کر کے بہادری کاثبوت دیا ہے ۔ایک سچا مسلمان ظلم کو ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ظلم کیخلاف آواز بلند کرتا ہے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو ظلم کیخلاف دل سے نفرت کرنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔بعض حلقے یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ملک کی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر سرگرم شرپسند اور دہشت گردعناصر کا قلع قمع کر ے اور میانمر اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ واقعی اس حد تک تو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔نکتہ صرف یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کیخلاف جنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک کو دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری کرنے کا اختیار ہے۔مگر اس جنگ کی آڑ میں کسی کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا لائسنس نہیں مل سکتا۔ دہشت گردوں کیخلاف جنگ توہو سکتی ہے مگر کسی پوری کمیونٹی کو ٹارگٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میانمرحکومت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں قرارداد منظور کرچکی ہے۔مگر میانمر حکومت بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کی پرواہ کئے بغیر ہٹ دھرمی سے اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کو ماننے پر تیار نہیں۔کیا ایسی صورتحال میں بین الاقوامی برادری کا فرض نہیں بنتا کہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمر حکومت اور بدھ انتہاء پسندوں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے مثبت کردار ادا کریں۔ہم اگر دہشت گردی کیخلاف حالت جنگ میںہیں تو اسکی ٹھوس وجوہات ہیں ۔ ہمیں ملک کے اندر ہونیوالے واقعات میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے پر کوئی شبہ نہیں اور وہ بڑا بیرونی ہاتھ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔چند دن قبل جب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ حالیہ پنجاب کنونشن سے خطاب کے بعد بلوچستان میں بھارتی ہاتھ کے ملوث ہونے کا ذکر کر رہے تھے تو عین اس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی ایوان صدر ڈھاکہ میں بنگلہ دیش لبریشن ایوارڈ وصول کرتے ہوئے مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑنے کا ڈھٹائی سے اعتراف کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہے تھے۔