• news

ہر اسلامی ملک میں ایک روہنگیا ٹاﺅن

روہنگیا مسلمانوں کی داستان حیات ایک دکھ بھری تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ روہنگیا بنگلہ دیش کی سرحد سے ملے ہوئے ملک برما کا حصہ ہے۔ یہاں آباد (بلکہ برباد) مسلمانوں کو روہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے۔ ایک روایت بتاتی ہے کہ روہنگیا مقامی باشندے ہیں۔
دوسری روایت یہ ہے کہ روہنگیا مغرب سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کی اولاد ہیں جبکہ ایک تاریخ دان رابن میکڈوول کا دعویٰ ہے کہ جب یہ علاقہ برطانوی حکومت کا حصہ تھا تو یہاں آبادی بہت کم تھی لہٰذا 1826ءمیں بنگال کے مسلمانوں کو اس کم آباد علاقے میں ہجرت کی ترغیب دی۔ پھر جب بنگالی مسلمان روہنگیا کے علاقے میں آباد ہو گئے اور ان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو بدھ اکثریت کو مستقبل میں اقلیت میں تبدیل ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نسلی فسادات شروع ہو گئے۔ روہنگیا مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی مختصر تصویر ہی دیکھنے والی آنکھوں کو لہو رلانے کیلئے کافی ہے۔
یہ تصویر کچھ اس طرح ہے کہ برما (اب میانمار) کے قانون کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شہری حقوق سے محرومی کے سبب روہنگیا مسلمان ملازمت، کاروبار، تعلیم اور دیگر سماجی سہولیات کا حق نہیں رکھتے۔ شادی سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی ہے۔ روہنگیا مسمانوں کو ایذاءپہنچانے والوں کیلئے کوئی سزا مقرر نہیں۔ ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں جانا ہو تو برمی پولیس کو بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت کے تحت مرکزی شہر ینگون جانا ہو تو چار ہزار ڈالر رشوت کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ 1968ءمیں برما میں فوجی آمریت نے پاﺅں جمالے تو مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے پاﺅں مزید اکھاڑ دیئے گئے۔ ان کو تھوڑے بہت جو حقوق حاصل تھے، غصب کر لئے گئے۔ 2011ءمیں جمہوریت بحال ہوئی تو ”آزادی اظہار“ کا حق استعمال کرتے ہوئے برمی بدھوں نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ روہنگیا مسلم پورے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ پھر روہنگیا مخالف مہم کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ خاندانوں کو زبردستی بے گھر کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ بے گھری نے انہیں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ 2012ءمیں روہنگیا مخالف فسادات کا آغاز ہوا۔ تب سے اب تک ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا اپنے مویشی، زیورات، سامان بیچ کر کشتیوں کے ذریعے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانی سمگلر متحرک ہو گئے۔ یہ سمگلر ہزاروں ڈالر کے عوض روہنگیا مسلمانوں کو کسی تیسرے ملک میں پہنچانے کا جھانسہ دیکر انہیں تھائی لینڈ کے ساحلی جنگل میں قائم خفیہ ٹھکانوں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں ان سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ رقم نہ ملنے پر انہیں جنگل میں قید کر دیا جاتا ہے جہاں فاقہ کشی اور نامساعد حالات کے ہاتھوں بہت سے قیدی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک تحقیقاتی ٹیم نے ان ٹھکانوں کے قریب بڑی تعداد میں بے نام قبریں دریافت کی ہیں۔ ان قبور کی بے زبانی نے یقیناً تحقیقاتی ٹیم سے سوال کیا ہو گا....
جانے کیوں جرم بنا، اپنا مسلمان ہونا
تھائی حکومت نے انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو انہوں نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا۔ اب روہنگیا مسلمانوں کو تھائی حدود میں اتارنے کے بجائے انہیں سمندر میں کھڑی کشتیوں ہی میں محصور رکھا جاتا ہے۔جو مسافر مزید تاوان ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں انہیں چھوٹی تیزرفتار کشتیوں میں بٹھا کر تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا میں داخل کر دیا جاتا ہے، باقی لوگ بھوکے پیاسے کھڑی کشتیوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ جان کی بازی ہارنے والے سمندری مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
اس سال تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا کے حکام نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سمندر کے پانیوں میں پھنسے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو عارضی پناہ دی جائے اور پھر انہیں واپس بھجوا دیا جائے لیکن میانمار حکومت نے اس کانفرنس میںشرکت سے انکار کر دیا۔ مقام افسوس ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار مغربی اقوام میں سے کسی نے میانمار حکومت کی مذمت نہیں کی۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دیا ہے لیکن ظالموں کے خلاف کسی اقدام کا اعلان نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسلامی دنیا نے بھی ان مظلوموں کی بحالی کیلئے کوئی مشترکہ مثبت قدم نہیں اٹھایا۔ چھ جون کو پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے اعلان کیا کہ بحیثیت مسلمان مجھے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور حالت زار دیکھ کر دکھ اور تشویش لاحق تھی لہٰذا میری تحریک پر وزیراعظم نے سرتاج عزیز، طارق فاطمی اور مجھ پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے تاکہ اس ظلم کو روکنے کیلئے فعال کردار ادا کیا جا سکے۔ چودھری صاحب کی خدمت میں ایک تجویز ہم بھی پیش کئے دیتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کی کانفرنس بلا کر ان سے درخواست کی جائے کہ ہر اسلامی ملک اپنے کسی شہر کے پہلو میں ایک روہنگیا ٹاﺅن قائم کرے جس میں روہنگیا مسلمانوں کو رہائش، کاروبار اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن