میں نے اسلام آباد میں کیا دیکھا اور کیا سنا؟
3 جون کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور کے ڈائریکٹر جنرل اعجاز حسین نے راقم کو فون کر کے بتایا کہ وفاقی حکومت نے صدر ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کو سننے کیلئے راولپنڈی، اسلام آباد میٹرو بس کی افتتاحی تقریب اور قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے آپ کو دعوت نامے بھیجے ہیں۔ آپ نے 4 جون کو صبح سات بجے لاہور ایئرپورٹ پر پہنچنا ہے۔ میں 4 جون کو ایئرپورٹ پر پہنچا تو وہاں دس پندرہ اور سینئر صحافی اسلام آباد جانے کیلئے بیٹھے تھے۔ میں بھی انکے ساتھ شامل ہو گیا۔ ہم سب صحافی جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچے تو وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات محمد اعظم اور پی آئی او را¶ تحسین نے ہم سب صحافیوں کو قومی اسمبلی میں بھجوانے کیلئے گاڑیاں بھجوائی ہوئی تھیں۔ ہم سب صحافی دس بجے کے قریب قومی اسمبلی میں پہنچ گئے اور سب نے صدر مملکت کا خطاب بڑے غور سے سنا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے جب یہ کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا، دہشت گردوں کو ملک کے کسی کونے میں چھپنے نہیں دینگے، حکومت اور عسکری قیادت ایک پیچ پر ہے، دہشت گردی کیخلاف مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ کراچی، بلوچستان سمیت پورے ملک کا امن بحال کرینگے، خطے میں امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، بھارت مذاکرات میں مخلص ہے تو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرے۔ اس پر سامعین نے بھرپور تالیاں بجائیں۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ 2018ءمیں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائیگا تو میرے پاس بیٹھے ہوئے صحافیوں کا کہنا تھا کہ خدا کرے 2018ءمیں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔خطاب سننے کے بعد راقم اور ملک بھر سے آئے ہوئے صحافی کنونشن سنٹر اسلام آباد میں میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے راولپنڈی، اسلام آباد میٹرو بس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد 23 مارچ 2014ءکو رکھا گیا تھا۔ 14 ماہ کی مدت میں یہ منصوبہ مکمل کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 68 بسیں چلیں گے اور ڈیڑھ لاکھ افراد مستفید ہونگے۔ اس پر سامعین نے بھرپور تالیاں بجائیں اور میاں نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگائے۔اس تقریب کے بعد دوسرے روز ہم سب صحافی قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں گئے۔ قومی اسمبلی کے ہال میں قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد بہت کم تھی۔ عمران خاں نے تو اس بجٹ اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پر تقریباً تین گھنٹے تقریر کی، انکی تقریر کے دوران قومی اسمبلی کے کئی اراکین اٹھ اٹھ کر جاتے رہے۔ لگتا تھا کہ انہیں بجٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف حاضری لگوانے کیلئے آئے تھے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو اس بجٹ کو غریب دوست بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما¶ں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے یہ بجٹ حوصلہ افزا ہے، اب ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا جبکہ اپوزیشن کے رہنما اس بجٹ کو عوام دشمن قرار دے رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ جمہوری حکومت نے نہیں بلکہ آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے انکا کہنا ہے کہ پورے کا پورا بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے اور خلا میں پیش کیا گیا ہے کیوں کہ بجٹ کا تقریباً چالیس فیصد قرضوں پر خرچ کر دیا جائیگا۔ حکومت بھاری بھرکم بجٹ میں سے 12 کھرب 80 ارب روپے کی خطیر رقم قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی پر خرچ کریگی۔ مالی سال 2015-16ءکے دوران غیر ملکی قرضوں پر سود کی مد میں 111.219 ارب روپے جب کہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کی مد میں 316.37 ارب روپے کی ادائیگی کی جائےگی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ بجٹ میں عام آدمی کی سہولت کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں بچتا جبکہ ہر پاکستانی 94 ہزار 88 روپے کا مقروض ہے پھر حکومت کا یہ دعویٰ کہ فی کس آمدنی 9.3 فیصد اضافے کے ساتھ 1512 ڈالر فی کس ہو گئی ہے، اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام کیلئے یہ بات انتہائی خوفناک ہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضے اور ادائیگیاں 28 کھرب 50 ارب تک جا پہنچی ہیں، جبکہ یہ عمل آئین پاکستان کیخلاف ہے۔ 1973ءکے آئین کے نفاذ کے پہلے دن ہی سود کو جلد از جلد ختم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اب تک یہ اقدام صرف باتوں کی حد تک محدود ہے۔ اب صورتِحال اس قدر بدتر ہو چکی ہے کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی کیلئے خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید نے پانچ جون کی رات کو اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔ انہوں نے وہاں صحافیوں کو بجٹ کے بارے میں بتایا کہ وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔ عمران خان نے تو لگتا ہے بجٹ پڑھا ہی نہیں یا انہیں سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ راقم نے اس بجٹ کے بارے میں اپنے ساتھی صحافیوں عطا الرحمن، ر¶ف طاہر، میاں سیف الرحمان، پرویز بشیر، صوفیہ بیدار اور سکندر حمید لودھی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مشکل حالات کے باوجود متوازن بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت منی بجٹ نہ آنے دے۔