مودی .... اعتراف سازش ارتکاب سازش
وزیر اعظم حسینہ واجد ایک طرف پاکستان توڑنے کیخلاف بھارتی سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کرنیوالوں کو پھانسیاں دے رہی ہیں تو دوسری طرف اس سازش کے کرداروں پر انعام واکرام کی برکھا برسا رہی ہیں۔ نریندر مودی بنگلہ دیش کے دورے پر تھے ، سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کے قیام میں ’فعال کردار‘ ادا کرنے پر ’بنگلہ دیش لبریشن وار آنرسے نوازا گیا۔واجپائی کے ”گوڈے رہ گئے“ ہیں اس لئے ان کا ایوارڈ مودی نے وصول کیا۔اس موقع پر مودی نے چہکتے ہوئے کہا’ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی۔ جب بنگلہ دیش کیلئے لڑائی لڑنے والے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے، تو بھارتی بھی انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے۔پاکستان توڑنے کی سازش ،دوسرے لفظوں میں پاکستان کے خلاف ریاستی دہشتگردی کا اعتراف کوئی بھارتی وزیر مشیر نہیں، بھارتی وزیر اعظم کررہا ہے ۔اس بیان پرہماری سیاسی اور وزارت خارجہ کی بلبلیں دو دن خاموش رہیں۔ تیسرے روز وزارت خارجہ نے،مردہ بولے کفن پھاڑے،جیسا بیان داغ دیا”بھارت پاکستان بنگلہ دیش تعلقات خراب نہیں کرسکتا“۔ خورشید شاہ نے البتہ قومی اسمبلی میں شدید ردعمل ظاہر کیا۔وزیر اعظم صاحب کوشاید کسی نے جگا کر بتایا ہی نہیں کہ بھائی جان مودی نے پاکستان کیخلاف کیا زہر افشانی کی ہے۔قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ مودی کے بیان پروزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بیدار ہوکرقومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ اس وقت تک تعلقات ہر سطح پر منقطع کرنے کا اعلان کریں جب تک بھارت پاکستان کو ٹکڑے کرنے کی سازش پر معافی نہ مانگ لے۔ متحدہ پاکستان ایک آزاد اورخود مختار ملک تھا۔بھارتی فوج نے کس قانون اورضابطے کے تحت پاکستان کا بارڈر پارکرکے کارروائیاں کیں۔بلا شبہ 1971ءمیں یحییٰ حکومت کا مشرقی پاکستان میں سیاسی مسئلے کا فوجی حل ایک غلط فیصلہ تھا۔اس اپریشن میں بنگالیوں کےساتھ جوابی زیادتیاں بھی ہوئی ہونگی جس کی صدر جنرل پرویزمشرف نے ڈھاکہ میں باقائدہ معافی مانگ لی تھی۔اسکے بعد حسینہ واجد کی پاکستان کےخلاف نفرت کے سمندر میں طوفان تھم جانا چاہیے تھا۔ذولفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کے درمیان معاہدے کے تحت ےہ طے ہوا تھا کہ ایک دوسرے کےخلاف جنگی جرائم پر مقدمہ نہیں چلایا جائےگا۔ مگر مجیب کی پُتری کسی بھی معاہدے اور معافی کو خاطر میں نہیں لارہی۔جب ملک توڑے جانے کی سازش کو عملی شکل دی جارہی تھی تو اس موقع پر متعلقہ ریاستی اداروں کو کیا کرنا چاہیے تھا؟یقینا وہی کچھ جس کا فوج کا حکم دیا گیا۔میجر شبیر سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں جو کچھ فوج اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ہوا اس سانحہ ستم کو بیان کرتے ہوئے وہ آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ میجر شبیر بتا رہے تھے کہ حالات اس وقت بگڑے جب ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا بلایا گیا اجلاس منسوخ کردیا گیا۔ موتیا چودھری جو آج بنگلہ دیش کی وزیر زراعت ہے، اس نے مینارِ شہدا پر ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کیخلاف زہر اگلا۔ اسکے ساتھ ہی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو پنجابی کہا جاتاتھا۔ مکتی باہنی اور باغی بنگالیوں نے جہاں بھی” پنجابی“ نظر آیا اسے زندہ نہیں چھوڑا۔ مختلف علاقوں سے 15ہزار ”پنجابی“ جان بچا کر ڈھاکہ ائرپورٹ پہنچے۔وہ اپنے ساتھیوں کے بے دردی سے قتل کے لرزہ خیز واقعات سناتے تھے۔کئی ان بہیمانہ واقعات پر ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ فوج پر بھی حملے ہو رہے تھے۔ فوج کو باغیوں پر قابو پانے کا حکم دیا گیا تو فوج کیا کرتی؟ مگر اس میں کوئی صداقت نہیں کہ فوج نے لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا۔ اتنی تو وہاں فوج کے پاس گولیاں بھی نہیں تھیں۔ فوج سے مقابلے میں مارے جانےوالے بنگالیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں۔ اب تک دنیا کے سامنے مشرقی پاکستان میں شورش اور فوجی اپریشن کا ایک بلکہ یکطرفہ رُخ ہی سامنے آیا ہے۔ فوج نے کس طرح وہاں جنگ لڑی وہ پردہ اخفامیں ہے۔ حمودالرحمن رپورٹ میں بھی اس پہلو کو نظرانداز کیا گیا۔ سراج گنج ہزاروں بہاریوں کا قصبہ تھا۔ اس پر بنگالی باغیوں نے یلغار کی اور ایک بھی شخص کو زندہ نہیں چھوڑا۔ اگلے روز وہاں لاشوں کو کتے کھا رہے تھے۔ اگرتلہ سازش واقعی پاکستان توڑنے کی سازش تھی۔یہ سازش پکڑی گئی ۔جن لوگوں کو سازش کے جرم میں پھانسی دی جانی چاہیے تھی وہ ناقص حکمتِ عملی کے باعث ہیرو بن گئے اور سازش کامیاب ٹھہری۔اوپن ٹرائل اور معاملے کو میڈیا میں اچھالنے سے سارا معاملہ فساد اور احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ ایوب خان نے عوامی و سیاسی دباو¿ میں آکر کیس کو ختم اور 23 فروری 1969 کو شیخ مجیب سمیت تمام ملزمان کو رہا کر دیا۔ وہ آناً فاناً ملزم سے عوامی ہیرو بن گئے۔ان ملزمان میں ایک کیپٹن سخاوت بھی تھے جو بعد میں پارلیمان کے اسپیکر بنے۔ انہوں نے 2010ءمیں یہ تسلیم کیا کہ ان تمام افراد پر اگرتلہ سازش کے حوالے سے لگائے جانیوالے تمام الزامات بالکل درست تھے اور وہ لوگ واقعی شیخ مجیب کی زیرِ قیادت اس مقصد کیلئے کام کر رہے تھے۔ مجیب الرحمن بھارت کیلئے 50کی دہائی سے کام کر رہا تھا۔ اسے 30 ہزار روپے ماہانہ ملتا تھا۔مجیب الرحمٰن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب the unfinished memoriesکا پیش لفظ حسینہ واجد نے لکھا۔گویا یہ مستند کتاب ہے۔ اس میں مجیب الرحمن لکھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کےلئے 1962ءمیں ایک خفیہ تنظیم بنائی تھی۔بھارتی آئی بی کے نائب سربراہ آر کرشن نارائن نے اپنی کتاب ان سائیڈ را اینڈ آئی بی میں لکھا ہے۔”میں مجیب کے ساتھ رابطے میں تھا“۔آج ہمیں کراچی میں بھی مشرقی پاکستان اور اگرتلہ سازش جیسے حالات کا سامنا ہے۔ مجیب کی طرح ”بھائی صاحب“کا تعلق بھی متوسط طبقے سے ہے۔ دونوں سٹوڈنٹ لیڈررہے اور انڈین ایجنسیوں کے پروردہ ہیں۔ ڈھاکہ مینار شہدا بنایاگیاتوکراچی میں یادگار شہداہے۔ یادگار شہدا کس کی علامت ہے؟ جن کی یادگار ہے ان کو کس نے شہید کیا؟ دونوں میں اور بھی بہت کچھ مماثل ہے۔ ایک سازش ہماری سیاسی و عسکری ایلیٹ کی حماقتوں، مفادات ہوس اقتدار اور خود غرضیوں کے باعث کامیاب ہوئی دوسری کو نہ ہونے دیں۔ لیکن اس سے پہلے مودی کے پاکستان توڑنے میں شریک جرم ہونے کے اعتراف اور دعوے کا بھرپور جواب دیا جائے اور بس ایک ہی مطالبہ ہو کہ انڈیا سازشوں کی معافی مانگے۔